بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیوٹی میں تاخیر کی وجہ سے فجر کی نماز ترک کرنے کا حکم


سوال

اگر فجر کے وقت ڈیوٹی پر جانے میں دیر ہورہی ہو تو کیا فجر کی نماز چھوڑ سکتے ہیں؟

جواب

ازروئے شرع ہر  عاقل بالغ مسلمان پر پانچ وقت کی نماز ادا کرنا فرضِ عین ہے، اور ان نمازوں کا عذرِ شدید کے بغیر وقتِ مقررہ پر ادا نہ کرنا یا بلا عذر جماعت کا چھوڑدینا شدید گناہ ہے، لہذاصورتِ مسئولہ  میں سائل کے لیے ڈیوٹی میں تاخیر کی بنیاد پر فجر کی نماز چھوڑنا جائز نہیں ہے،اس پر لازم ہے کہ وہ ایسی ترتیب بنائے کہ فجر کی نماز اس کے وقت میں باجماعت ادا ہوجائے،یعنی فجر کے وقت سے پہلے اٹھ کر ڈیوٹی کی تیاری اور نماز کی تیاری مثلاً وضو وغیرہ کرلے اور باجماعت نماز ادا کرتے ہی فوراً ڈیوٹی کے لیے نکل جائے،تاکہ نماز بھی ادا ہوجائےاور ڈیوٹی پر جانے میں بھی تاخیر نہ ہو،اور اگریہ ترتیب نہ بن پائے تو جس جگہ ڈیوٹی کرتا ہےوہاں جلدی پہنچ جائے اور وہیں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرلے،اور اگر مسجد کی جماعت نہ مل سکے تو ڈیوٹی پر موجود دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز ادا کرے،اور اگر کبھی مسجد کی جماعت سے نماز نکل جائےاور  دیگر ساتھیوں کے ساتھ بھی جماعت کی ترتیب نہ بن رہی ہوتووقت کے اندر اندر نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیاجائےاور اگر وقت نکل گیا ہوتو قضاکرنا لازم ہے،بہرصورت نماز کو ڈیوٹی کی وجہ سے ترک کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں،لہذانماز کےمقررہ وقت میں باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیاجائے،یا بلاجماعت وقت میں نماز ادا کرے،خواہ ڈیوٹی کی جگہ پر ادا کرلے۔

احکام القرآن للجصاصؒ میں ہے:

" { إِنَّ الصَّلاةَ ‌كَانَتْ ‌عَلَى ‌الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً }  أي فرضا في أوقات معلومة لها."

(ج:1، ص:27، ط:دارالكتب العلمية)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ليس ‌صلاة ‌أثقل ‌على ‌المنافقين من الفجر والعشاء، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا."

(كتاب الاذان، ‌‌باب فضل العشاء في الجماعة، ج:1، ص:132، ط:دارطوق النجاة)

ترجمہ:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : منافقوں پر فجر اور عشاء کی نمازوں سے بھاری اور کوئی نماز نہیں ہے اور اگر وہ جانتے کہ ان (نمازوں) میں کیا (اجر) ہے تو گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے بھی حاضر ہوتے۔"

بدائع الصنائع میں ہے:

"أن ‌تأخير ‌الصلاة ‌عن وقتها من الكبائر فلا يباح بعذر السفر والمطر كسائر الكبائر."

(كتاب الصلاة،ج:1، ص:127، ط:دارالكتب العلمية)

دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے:

"قال صاحب البحر والظاهر أن المراد بالمأثم إثم ترك الصلاة فلا يعاقب عليها إذا قضاها. وأما إثم تأخيرها عن الوقت الذي هو كبيرة فباق لا يزول بالقضاء المجرد عن التوبة بل لا بد منها."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:1، ص:124،ط:داراحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب .

وفي الرد:وقال في شرح المنية: والأحكام تدل على الوجوب، من أن تاركها بلا عذر يعزر وترد شهادته، ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وقد يوفق بأن ذلك مقيد بالمداومة على الترك كما هو ظاهر قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا يشهدون الصلاة» وفي الحديث الآخر «يصلون في بيوتهم» كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع نحو بنو فلان يأكلون البر: أي عادتهم، فالواجب الحضور أحيانا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة. اهـ. ويرد عليه ما مر عن النهر، إلا أن يجاب بأن قول العراقيين يأثم بتركها مرة مبني على القول بأنها فرض عين عند بعض مشايخنا كما نقله الزيلعي وغيره، أو على القول بأنها فرض كفاية كما نقله في القنية عن الطحاوي والكرخي وجماعة، فإذا تركها الكل مرة بلا عذر أثموا فتأمل."

(كتاب الصلاة، باب الامامة، ج:1، ص:552، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں