بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

داخلہ فارم پر وکالت کا دستخط لینے کاحکم


سوال

بعض مدارس میں بالغ اور نابالغ ،رہائشی اور غیررہائشی طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں ،سال کے شروع میں داخلہ فارم پرُ کرنے کا رواج ہے،جس میں مختلف شرائط کے ساتھ زکات کے متعلق یہ شرط بھی درج ہے کہ تاقیام میری طرف سے مہتمم صاحب یا جس کو مہتمم صاحب اجازت دیں کہ وہ زکات وغیرہ کی رقم یا اشیاء وصول کرکے طلبہ کی ضرورت طعام وقیام اورتعلیم میں خرچ کریں یا مدرسہ پر وقف کریں،مدرسہ کو کلی اختیارہوگا،جب کہ مدرسہ میں غیرمستحق زکات طلباء بھی ہوتے ہیں ،آیا وہ اس سہولت جو کھانے پینے اور رہائشی کی ہےمستحق ہیں یا نہیں ؟اور اس طرح شرط کے کیاحیثیت ہے؟

کیا زکوۃ کے مستحق طلباء مہتمم صاحب کو وکیل بنارہےہیں یا مالک؟واضح رہےکہ بعض طلباءفارم پرُ کرنے کے بعد چندہفتے یا چند مہینے رہ کر مدرسہ سے چلے بھی جاتے ہیں ،اگر مہتمم صاحب کو وکیل بنارہے ہیں تو طالب علم کے چلے  جانے کی صورت میں اس کی باقی ماندہ رقم کاکیا حکم ہوگا؟اور اگر مدرسہ میں اتنی رقم جمع ہوجائے  کہ مستحق طلباء خود صاحب نصاب بن جائیں اور اس پر سال گزرجائےتو ایسی رقم پر زکات واجب ہوگی یانہیں ؟اور ایسی صورت میں طلباء زکوۃ کےمستحق ہوں  گے؟جب کہ انہی طلباءکی وجہ سے سال بھر صدقات واجبہ اور نافلہ وصول کیے جاتے ہیں ۔اور اگر مہتمم صاحب کو مالک بنارہےہیں تو مہتمم صاحب کے پاس اتنی رقم جمع ہوجائے کہ وہ صاحب نصاب بن جائےتو اس پر زکات ہوگی یا نہیں؟

مدرسہ کی تعلیم عام طورپر شوال سےشروع ہوکر شعبان تک ہوتی ہے،رمضان کے آخری عشرہ اورشوال کے پہلے عشرہ میں تعلیمی سرگرمیاں تقریبا معطل ہوتی ہے،کسی قسم کی کوئی تعلیم اس دوران نہیں ہوتی ،ان ایام کے دوران زکاۃ کی وصولی کرنا کیساہے؟جب کہ مدرسہ میں کوئی طالب علم بھی نہیں  ہوتااور نہ  کسی قسم کی کوئی پڑھائی بھی  ہوتی ہے،نئے سال شوال میں تمام طلباء قدیم اور جدید کےنئےداخلے ہوتے ہیں ۔

جواب

 مدارس کے ذمہ داران طلبہ کے نمائندے اور وکیل ہیں، لہٰذا ان کے پاس رقم جمع کراتے ہی زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، البتہ ان کےلیے مذکورہ وکالت نامے کی بنیاد پر باقاعدہ تملیک کے بغیر زکوٰۃاورصدقات ِواجبہ  کی رقم کو غیر مصارف میں صرف کرنا جائز نہیں ہے،اس لئے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے درست ہونے کے لیے تملیک ضروری ہے، یعنی جس کو زکاۃ دی جا رہی ہو  ،اس کو اس چیز میں تصرف کرنے کا مکمل اختیار دے کر   مالک بنا دیا جائے، جب کہ مدرسہ میں داخلہ کے وقت داخلہ فارم پر بچے  سے  وصولی زکوۃاور خرچ کے وکالت نامہ پر دستخط کرا لینے اور وکالت نامہ  کے ذریعہ مدرسہ کے مہتمم و منتظم کا طلبہ کا وکیل بن کر زکاۃ وصول کرنے کے بعد باقاعدہ طلبہ کو قبضہ دے کر مالک بنائے بغیر اپنے قبضہ کو طلبہ کے قبضہ  کے قائم مقام سمجھ کر ان پر خرچ کرنے میں چوں کہ تملیکِ زکاۃ کی  صورت نظر نہیں آتی؛ اس لیے اس طرح کا حیلہ کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسے حیلے پر مشتمل وکالت نامہ  (جس کے تحت وکیل کو وصولی زکاۃ و صدقہ اور ان کے خرچ کے اختیارات  حاصل ہوتے ہیں ) پر بے شمار فقہی اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور بہت سی وجوہِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱)مدارسِ عربیہ کی بیشتر آمدنی (زکاۃ و صدقاتِ واجبہ وغیرہ) رمضان المبارک میں جمع ہوجاتی ہے، جب کہ طلبہ کا داخلہ شوال میں ہوتا ہے، تو وکالت نامہ پر دستخط تو بعد میں لیا جارہا ہے جب کہ زکاۃ وغیرہ کا بیشتر حصہ پہلے ہی سے مدرسہ کے فنڈ میں جمع ہو چکا ہوتا ہے، اس پر اشکال یہ ہے کہ وکالتِ لاحقہ یا اجازتِ لاحقہ وصول شدہ زکاۃ و صدقات کے وصول و خرچ کے لیے تملیک کا فائدہ کیسے دے سکتی ہے؟

۲)اس طرح کے وکالت نامہ پر دستخط سے فقہی طور سے وکالت کا مفہوم اور روح نہیں پائی جاتی، کیوں کہ  مذکورہ وکالت نامہ میں نہ تو یہ تعیین ہوتی ہے کہ مہتممینِ مدرسہ یا انتظامیہ کتنی مقدارِ زکاۃ وصول کریں گے؟ جن افراد سے مالِ زکاۃ و صدقات وصول کیا جائے گا وہ افراد و اشخاص کون ہیں؟ اور کن کن مصارف میں کتنا کتنا خرچ کریں گے؟ تو اتنی جہالت پر مبنی توکیل ( وکالت نامہ اور اس پر دستخط) کیسے درست ہوگا؟

۳)بذریعہ وکالت نامہ طلبہ کے نام پر زکاۃ و صدقات کی جو رقم وصول ہوگئی اس رقم میں سے جتنی خرچ ہونے کے بعد بچ جائے وہ ان طلبہ کی ملکیت ہوگی، لہٰذا اس رقم کے ختم ہونے سے پہلے جو طلبہ مدرسہ سے فارغ ہوکر جارہے ہوں وہ بقیہ رقم ان طلبہ کو واپس ملنی چاہیے، لیکن وہ واپس نہیں ملتی، بلکہ مدرسہ میں ہی رہ جاتی ہے،  اور اگر  وہ وکالت نامہ میں مدرسہ کو فاضل رقم کا مالک بھی بنا دیں تو اس پر یہ اشکال ہوگا کہ شے مجہول کی تملیک کیسے ہوگی؟ کیوں کہ وکالت نامہ پر دستخط کرتے وقت یہ بات معلوم ہی نہیں ہوتی کہ کتنی رقم وصول ہوگی؟ کتنی خرچ ہوگی؟ اور کتنی اس میں سے بچ جائے گی؟ اس لیے اس طرح کے مجہول  اجازت نامے اور وکالت نامے سے نہ تو تملیک ثابت ہوگی اور نہ ہی یہ حیلہ تملیک کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔

۴)طلبہ سے  جو  وکالت نامہ پر  دستخط کروا کر توکیل کروائی جاتی ہے وہ و جبر و اکراہ پر مبنی ہوتی ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ وکالت نامہ پر دستخط داخلہ کے وقت  داخلہ فارم پر کروائے جاتے ہیں اور جو طالب علم دستخط نہ کرے اسے مدرسہ میں داخلہ نہیں دیا جاتا، چناں چہ طالب علم چاہے یا نہ چاہے اسے داخلہ لینے کے لیے ہر حال میں وکالت نامہ پر دستخط کرنے پڑتے ہیں، جو کہ ایک قسم کا جبر و اکراہ ہوا، لہٰذا ایسے جبر و اکراہ پر مشتمل توکیل کے ذریعہ سے حاصل شدہ اختیار کی شرعاً  کیا حیثیت ہوگی ؟

۵)اس طرح کے حیلہ بہانے کا سلسلہ نہ تو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھا اور نہ بعد میں خیر القرون کے کسی دور میں تھا، بلکہ ہمارے اکابرین علمائے دیوبند (حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ، حضرت مولونا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ وغیرہ ) میں سے بھی کسی نے اس قسم کے خیالات کا کبھی تصور بھی نہیں کیا، بلکہ انہوں نے مدارسِ عربیہ کے لیے شدید مجبوری کے وقت جو حیلہ تملیک تجویز کیا ہے وہ تمام مدارسِ عربیہ میں سو سال سے زائد مدت سے جاری  و ساری ہے کہ مستحق طلبہ کو مالکانہ قبضہ دے کر ان سے  ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنے کے لیے  بطورِ توکیل واپس لے لیا جاتا ہے یا مدرسہ کے دیگر اخراجات میں خرچ کرنے کے لیے بطور چندہ مانگ لیا جاتا ہے، اس طرح زکاۃ کی شرطِ تملیک بھی پوری ہوجاتی ہے اور مستحق طلبہ اس تملیک کے ذریعہ مدرسہ میں چندہ دینے کا ثواب بھی حاصل کر تے ہیں اور کوئی اور ذریعہ آمدن نہ ہونے کی صورت میں اس طرح کرنے سے مدرسہ کی ضروریات بھی پوری ہوجاتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ  باقاعدہ تملیک کیے بغیر صرف داخلہ کے وقت وکالت نامہ پر دستخط کرواکر زکوۃ کے مال کو طلبہ  کے ضروریات،قیام وطعام اور تعلیم  پر یا مدرسہ کی دیگر ضروریات پر خرچ کرنا درست نہیں ہے۔  (مستفاد از جواہر الفتاویٰ،   جلد:2، صفحہ: 441، طبع: اسلامی کتب خانہ)

نیزواضح رہے کہ تمام مدارس کے مہتممین ومنتظمین وصولی زکوٰۃ کے بارے میں عمال بیت المال کی طرح ہیں یعنی مستحق طلبہ  کی جانب سے مہتمم  کی حیثیت وکیل اورامین کی ہوتی ہے،  وکیل ہونے کاثمرہ یہ ہےکہ  معطیین (زکوٰۃ دینے والے) اگر مہتمم  کوزکوۃ کی رقم حوالے کرے، تو ان کی زکوۃ اداہوجائے گی   نیز اگر  اسی زکوۃ کی رقم پر سال گزر جائے، تو اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی،اورامین بایں طور ہے کہ اگر بغیر تعدی کے وہ رقم ہلاک ہوجائے تو مہتمم  پرضمان نہیں آئےگا، نیز وصولی زکوۃ کے بعد  اسے جہت متعینہ یعنی مستحق طلبہ  میں تقسیم کرنااورانہیں زکوٰۃ،صدقات واجبہ کا بلا عوض مالک بنانا بھی ضروری ہے،بلاتملیک شرعی  مہتمم  مدرسہ یامنتظم ِ مدرسہ کواس میں کسی قسم کے تصرفات کی اجازت واختیار نہیں ۔

اور جس طرح  مہتمم  ومنتظم طلبہ  کی طرف سے وکیل وامین ہے،اسی طرح معطیینِ زکوۃ وصدقات کی جانب سےبھی وکیل وامین ہے،کہ زکوٰۃ وصدقات کو اپنے متعین مصرف   یعنی مستحق طلبہ  کے وظائف و دیگر اخراجات میں خرچ کرے، اس کے خلاف کسی غیرمصرف میں خرچ نہ کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين."

(کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف، ج: 1، ص: 188، ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."

( كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 256، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)..قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه..

(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة."

(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزكاة والعشر، ج: 2، ص: 345،344، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ‌ثواب ‌الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة."

(کتاب الحیل، الفصل الثالث فی مسائل الزکوۃ، ج: 6، ص: 392، ط: دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"وكذلك في جميع أبواب البر التي لا يقع بها التمليك كعمارة المساجد وبناء القناطر والرباطات لا يجوز صرف الزكاة إلى هذه الوجوه.(والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة وفي فتاوى أبي الليث -رحمه الله تعالى - مواضع موات على شط جيحون عمرها أقوام كان للسلطان أن يأخذ العشر من غلاتها وهذا الجواب، إنما يستقيم على قول محمد - رحمه الله تعالى - لأن ماء جيحون عنده عشري والمؤنة تدور مع الماء ولو أباح السلطان شيئا من ذلك لرباط ثمة لا يجوز للمتولي أن يصرفه إلى الرباط.(والحيلة في ذلك) أن يتصدق السلطان بذلك على الفقراء، ثم الفقراء يدفعون ذلك إلى المتولي يصرف ذلك إلى الرباط كذا في الذخيرة."

(کتاب الحیل، الفصل الثالث في مسائل الزكاة، ج: 6، ص: 392، ط: دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”جواب: مہتمم  ِمدرسہ کو ارباب ِاموال نے صراحۃ ًوکیل بنایاہے کہ ہمارا مال حسب صوابدیدمصارف میں صرف کردیں،غرباء کا بھی وکیل ہے اس طرح کہ طلبہ نے جب اس کے اہتمام کو تسلیم  کرلیاتو گویا یہ کہہ دیا کہ آپ ہمارے واسطے ارباب ِاموال سے زکوۃ وغیرہ وصول کرکے ہماری ضروریات (کھانا،کپڑاوغیرہ)میں صرف کردیں۔“

(باب اداء الزکاۃ،مہتمم مدرسہ طلبہ کاوکیل ہے یا معطی کا؟،ج:9، ص: 514، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں