بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ای کامرس کے ذریعے کاروبار کرنے کا حکم


سوال

کیا ای کامرس کے ذریعے کاروبار کرنا جائز ہے؟

جواب

کسی بھی کاروبار کے جواز اور عدمِ جواز کا تعلق اس کاروبارکے طریقہ کارسے ہوتاہے، اگر وہ کاروبار بنیادی طور پر حلال اور جائز ہو، اوراس کا طریقہ کار  بھی شرعی اصولوں کے مطابق ہو، تو ایسا کاروبار کرنا جائز ہے اور اگر وہ كام ناجائز ہو یا کاروبار تو جائز ہو، لیکن اس کے کرنے کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہو تو ایسا کاروبار کرنا جائز نہیں ۔

لہذا ای کامرس نہ یہ مطلقا جائز ہے اور نہ مطلقاناجائزہےبلکہ اگر  یہ  شرعی اصولوں کے مطابق ہو، اس میں کسی قسم کے غیر شرعی امر کا ارتکاب کرنا نہ پڑتا ہو تو یہ کاروبار جائز ہوگااور اگر اس  میں کسی غیر شرعی امرکا ارتکاب کرنا پڑتا ہوپھر جائز نہیں ۔اہم اصول درج ذیل ہیں:

1۔مبیع مال متقوم ہو لہذا جو چیز مال متقوم نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں۔

2۔مبیع موجودہو اوربائع کی ملکیت میں ہو  لہذا اگر مبیع موجود نہ ہو یا بائع کی ملکیت میں  نہ آئی ہو تو اس کی بیع جائز نہ ہوگی۔

3۔جو چیز بیچی جارہی ہو وہ بائع کے قبضے میں ہو اوراس کی حوالگی پر قدرت بھی ہو لہذا غیر مقبوض اور غیر مقدورالتسلیم کی بیع درست نہیں ۔

4۔مبیع  اور اس کی قیمت معلوم ہولہذا اگر ان دونوں میں سے کسی ایک میں ایسی جہالت ہو جو باہم نزاع کا سبب بن سکتی  ہو توایسی بیع درست نہ ہوگی۔

باقی آپ ای کامرس کے ذریعہ کس طرح کاروبار کرنا چاہتے ہیں اس کا پورا طریقہ لکھ کر دارالافتاء سے دوبارہ رجوع کریں، پھر واضح جواب دیا جائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها في البدلين وهو قيام المالية حتى لا ينعقد متى عدمت المالية هكذا في محيط السرخسي ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه  ۔۔۔ وأن يكون مالا متقوما شرعا مقدور التسليم في الحال أو في تالي الحال  ۔۔۔۔ ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح." 

(كتاب البيوع، ‌‌الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:2،3، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں