بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ای، ایم، آئی سے خریداری کا حکم


سوال

ای ایم آئی کے ذریعےکوئی سامان وغیرہ  خریدنا کیساہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ای، ایم، آئی سے خریداری مندرجہ ذیل وجوہات کی بناپر جائز نہیں ہے:

1: اس معاملہ میں قسطوں پر خریداری کی صورت میں جو  اضافی رقم  دی جاتی ہے، وہ   اصل قیمت میں اضافہ  نہیں ہے، بلکہ وہ  ”سود “ کے نام پر  دی جاتی ہے، اور مدّت  کے بدلے میں جو قیمت میں اضافہ  ہو شرعاً وہ سود ہے ، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

2: خریدار کو اگر چہ  وہ رقم ڈسکاؤنٹ کے نام سے معاف کردی جاتی ہے، لیکن خریدار ہی کی طرف سے بینک یہ سود ادا کرتا ہے، اور  خریدار بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر ہوتا ہے،    اور اکاؤنٹ ہولڈر کی جو رقم بینک میں رکھی ہوتی ہے، شرعا  وہ ” قرض“ کے حکم میں ہے، اور قرض پر کسی قسم کا مشروط نفع لینا شرعاً”سود“ ہے۔

3:  ماہانہ قسط کی ادائیگی میں  تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط ہوتی ہے،  اگرچہ وقت پر قسط کی ادائیگی ہو تب بھی  اس شرطِ فاسد کی وجہ سے پورا معاملہ فاسد ہوگا، الغرض یہ شرط فاسد ہےاور جرمانہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

4: عام طور پر یہ معاملہ ”کریڈٹ کارڈ“ کے ذریعے ہوتا ہے، اور ”کریڈٹ کارڈ“کا استعمال فی نفسہ بھی ناجائز ہے۔

لہذا     ای، ایم، آئی کے ذریعے خریدوفروخت سے اجتناب  ضروری ہے۔

حدیث شریف ميں هے:

" وحدثني عن مالك عن زيد بن أسلم أنه قال: "كان الربا في الجاهلية، أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل، فإذا حل الأجل، قال: أتقضي أم تربي؟ فإن قضى أخذ، وإلا  زاده في حقه، وأخر عنه في الأجل."

(موطا امام مالك، باب ما جاء في الربا في الدين، ج: ۲، صفحہ:۶۷۲، ط:  دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(مطلب کل قرض جر نفعا، ج: 5، صفحہ: ۱۶۶، ط: ایچ، ایم، سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(فصل فی التعزیر، ج: ۵، صفحہ: ۴۱، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511100949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں