بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی لوڈ کرنے پر کمپنی ریٹ سے زائد وصول کرنے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے شہر سے کچھ فاصلے پر کریانہ کی دکان کھولی اس میں اس نے اہلِ محلہ کی سہولت  کے لیے ایزی لوڈ بھی رکھا،  جب وہ بازار سے 1000 کا لوڈ کراتا ہے تو منافع کے طورپر اسے 1000 کے 1026 ملتا ہے،  لیکن اس کے باوجود وہ اپنے صارف کو بتا کر  کہ ہم 10 فیصد کٹوتی کرتے ہیں،  پھر وہ 100 پہ  90 لوڈ کرتا ہے۔ اور اس کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے لوڈ صرف اور صرف اہلِ محلہ کی سہولت  کے لیے رکھا ہوا ہے؛ اس لیے کہ ہم نے لوڈ کا جو سم لی  ہے وہ سم بھی نسبتًا باقی سموں سے مہنگی  ہے اور اسی 1000 کا اگر ہم کوئی اور ایٹم لاتے ہیں تو ہمیں منافع بھی زیادہ ہے، مگر  چوں کہ اہلِ محلہ کی ضرورت ہے اس وجہ سے ہم لوڈ رکھتے ہیں اور اپنے صارف کو بتا کر اضافی کٹوتی کرتے ہیں۔ کیا اس دکاندار  کے لیے یہ اضافی کٹوتی جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایزی لوڈ   اور ریچارج کارڈ کا کام کرنے والے افراد کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، اور وہ جو کارڈ فروخت کرتے ہیں، یا ایزی لوڈ کرتے ہیں، وہ کمپنی کے وکیل  کی حیثیت سے کرتے ہیں، جس پر انہیں کمپنی کی جانب سے پیشگی معاوضہ بصورتِ کمیشن دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی، یہاں تک کے اگر کوئی نمائندہ مقررہ نرخ سے زائد وصول کرتے پکڑا جائے تو کمپنی کی جانب سے نمائندگی کے حق سے معزول کرنے کا حق کمپنی محفوظ رکھتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کریانہ اسٹور  کے مالک کی جانب سے زائد کمیشن وصول کرنا جائز نہ ہوگا، چاہے گاہک کو بتاکر وصول کیا جائے۔

مسئولہ صورت کی نظیر   ’’امداد الفتاوی‘‘  میں ہے:

"اسٹامپ کو اس کی مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت کرنا

سوال (۱۷۴۶) : قدیم ۳ / ۱۱۳- لیسنس دار جو اسٹامپ خزانہ سے بیچنے کے لیے  لاتے  ہیں، ان کو  ایک روپے تین پیسے کمیشن کے طور پر دیے  جاتے ہیں یعنی ایک روپے کا اسٹامپ سوا پندرہ آنہ پر مِلتا ہے، اور لیسنس داروں کو یہ ہدایت قانوناً ہوتی ہے کہ وہ ایک روپیہ سے زائد میں اس اسٹامپ کو نہ بیچیں ، اب قابلِ دریافت یہ بات ہے کہ اگر یہ شخص ایک روپے والے اسٹامپ کو مثلاً ایک روپے یا سترہ آنے میں فروخت کرے تو شرعاً جائز ہوگا یا ناجائز؟

الجواب: حقیقت میں یہ بیع نہیں ہے، بلکہ معاملات کے طے کرنے کے لیے جو عملہ درکار ہے اس عملہ کے مصارف اہلِ معاملات سے بدیں صورت  لیے جاتے ہیں کہ ان ہی کے نفع کے لیے اس عملہ کی ضرورت پڑی؛ اس لیے اس کے مصارف کا ذمہ دار ان ہی کو بنانا چاہیے اور لیسنس دار بھی مصارف پیشگی داخِل کر کے اہلِ معاملہ سے وصول کرنے کی اجازت حاصِل کر لیتا ہے، اور اس تعجیلِ ایفاء کے صلہ میں اس کو کمیشن ملتا ہے، پس یہ شخص عدالت کا وکیل ہے، مبیع کا ثمن لینے والا نہیں ، اس  لیے مؤکل کے خلاف کر کے زائد وصول کرنا حرام ہوگا۔  فقط۔ ۲۴ ؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۹؁ ھ (تتمہ اولیٰ ص ۱۵۹)

( امداد الفتاوی جدید، ۷ / باب: جائز و ناجائز یا مکروہ معاملات بیع، ۶ / ۵۱۴، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وَأَمَّا) : الْوَكِيلُ بِالْبَيْعِ فَالتَّوْكِيلُ بِالْبَيْعِ لَا يَخْلُو إمَّا أَنْ يَكُونَ مُطْلَقًا، وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ مُقَيَّدًا، فَإِنْ كَانَ مُقَيَّدًا يُرَاعَى فِيهِ الْقَيْدُ بِالْإِجْمَاعِ."

(كتاب الوكالة، فصل في بيان حكم التوكيل، ۶ / ۲۷، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وَجُمْلَةُ الْأَمْرِ أَنَّ كُلَّ مَا قَيَّدَ بِهِ الْمُوَكِّلُ إنْ مُفِيدًا مِنْ كُلِّ وَجْهٍ يَلْزَمُ رِعَايَتُهُ أَكَّدَهُ بِالنَّفْيِ أَوْ لَا كَبِعْهُ بِخِيَارٍ فَبَاعَهُ بِدُونِهِ، نَظِيرُهُ الْوَدِيعَةُ إنْ مُفِيدًا كَ " احْفَظْ فِي هَذِهِ الدَّارِ " تَتَعَيَّنُ، وَإِنْ لَمْ يَقُلْ لَاتَحْفَظْ إلَّا فِي هَذِهِ الدَّارِ لِتَفَاوُتِ الْحِرْزِ وَإِنْ لَايُفِدْ أَصْلًا لَايَجِبْ مُرَاعَاتُهُ كَبِعْهُ بِالنَّسِيئَةِ فَبَاعَهُ بِنَقْدٍ يَجُوزُ، وَإِنْ مُفِيدًا مِنْ وَجْهٍ يَجِبُ مُرَاعَاتُهُ إنْ أَكَّدَهُ بِالنَّفْيِ وَإِنْ لَمْ يُؤَكِّدْهُ بِهِ لَايَجِبُ."

( كتاب الوكالة، فَصْلٌ لَا يَعْقِدُ وَكِيلٌ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ وَالْإِجَارَةَ وَالصَّرْفَ وَالسَّلَمَ، ۵ / ۲۲۳، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں