بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ 1 روپی گیم


سوال

ایزی پیسہ ون روپی گیم میں حصہ لینے والے کا انعام نہ نکلنے کی صورت میں وہ ایک روپیہ واپس اکاؤنٹ میں آ جاتا ہے ، اور جیتنے والے کا کٹ جاتا ہے ، کیا اس صورت میں یہ جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ "ون روپی گیم" جس میں ایزی پیسہ   کمپنی کسی قیمتی چیز (موبائل وغیرہ )کو قرعہ اندازی کے ذریعے صرف ایک روپیہ میں خریدنے کا آفر دیتی ہے، جو لوگ قرعہ اندازی میں شریک ہونا چاہتے ہیں وہ اس چیز کی تصویر کے نیچے "Buy for Rs.1" (یعنی یہ چیز ایک روپیہ میں خریدیں ) پر کلک کر کے اپنے اکاؤنٹ سے ایک روپیہ ایزی پیسہ کمپنی کو بھیج دیتے ہیں اور وہاں "Purchased" یعنی یہ چیز آپ نے خرید لی، لکھا ہوا آجاتا ہے،  پھر ایزی پیسہ کمپنی چند دن بعد قرعہ اندازی کے ذریعے خریدار  (یعنی آفر جیتنے والا ) کے نام کا اعلان کرلیتی ہے اور اس کو ایک روپیہ کے بدلے میں وہ چیز بیچ دیدیتی ہے، جبکہ باقی لوگوں کو ان کا ایک ایک روپیہ دو دن میں  واپس کردیا جاتا ہے۔   

درج ذیل وجوہات کی بناء پر  مذکورہ گیم  میں حصہ لینا اور جیتنے کی صورت میں وہ چیز لینا شرعا جائز نہیں:

1۔  کمپنی جس چیز کی پیشکش کرتی ہے، اس کی تصویر کے نیچے لکھے ہوئے الفاظ  "Buy for Rs.1" یعنی یہ چیز ایک روپیہ میں خریدیں، ایزی پیسہ کمپنی کی طرف سے ایجاب (Offer) ہے، اور اس پر کلک کرنا  قبول (Acceptance) ہے، چنانچہ قرعہ اندازی میں حصہ لینے والا شخص جب اس پر کلک کر کے ایک روپیہ ادا کرتا ہے تو ایپ کے مطابق بیع )خرید وفروخت(ہوجاتی ہے جس کو Purchased کے الفاظ سے یقینی بنادیا جاتا ہے، لیکن کمپنی ہر شخص کے ساتھ جو بیع کرتی ہے وہ ایک اور کام یعنی قرعہ اندازی میں نام نکلنے پر موقوف اور معلق ہوتی ہے اور خرید و فروخت کے معاملے کو کسی دوسرے کام یا واقعے پر معلق کرنا جائز نہیں، فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کو "قمار" یعنی جوا قرار دیا ہے۔

2۔  جب خرید وفروخت کا معاملہ ایک دفعہ ہوجائے تو پھر کوئی ایک فریق دوسرے کی مرضی کے بغیر اس کو ختم نہیں کر سکتا،  جن افراد کے نام نہیں نکلتے، ایزی پیسہ کمپنی ان کے ساتھ معاملہ یک طرفہ طور پر ختم کر کے ان کو ان کا ایک ایک روپیہ بھیج دیتا ہے، جو کہ بیع کے اصول کے خلاف ہے۔

لہٰذا یہ گیم "قمار" یعنی جوے کی ایک قسم ہے، خرید وفروخت کا صرف نام ہے،اور قمار شرعا جائز نہیں، لہٰذا اس گیم میں حصہ لینے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

تبيين الحقائق  میں ہے:

"(أن التعليق بالشرط المحض لا يجوز في التمليكات؛ لأنه من باب القمار، وأنه منهي عنه."

(کتاب البیوع، باب المتفرقات، ج:4، ص:131، دار الکتاب الاسلامیۃ)

فتاوی شامی ہے:

"( وما لا تصح ) إضافته ( إلى المستقبل ) عشرة ( البيع وإجازته وفسخه والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين)؛ لأنها تمليكات للحال، فلا تضاف للاستقبال، كما لا تعلق بالشرط؛ لما فيه من القمار."

(‌‌کتاب البیوع، باب المتفرقات، مطلب ما يصح إضافته وما لا تصح، ج:5، ص:256، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

" قوله ( لما فيه من القمار ) هو المراهنة كما في القاموس، وفيه: المراهنة والرهان: المخاطرة.  وحاصله أنه تمليك على سبيل المخاطرة، ولما كانت هذه تمليكات للحال لم يصح تعليقها بالخطر لوجود معنى القمار."

(کتاب البیوع، باب الصرف،  ج:5، ص:257، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"( والملامسة ) للسلعة ( والمنابذة ) أي نبذها للمشتري ( وإلقاء الحجر ) عليها، وهي من بيوع الجاهلية، فنهى عنها كلها،  عيني، لوجود القمار، فكانت فاسدة إن سبق ذكر الثمن،  بحر.  قوله ( إن سبق ذكر الثمن ) عبارة البحر: ولا بد في هذه البيوع أن يسبق الكلام منهما على الثمن ا ه أي لتكون علة الفساد ما ذكر، وإلا كان الفساد لعدم ذكر الثمن إن سكتا عنه؛ لما مر أن البيع مع نفي الثمن باطل، ومع السكوت عنه فاسد."

(‌‌کتاب البیوع، باب البيع الفاسد، ج:5، ص:66، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں