بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ کا حکم اور عام اکاؤنٹ سے رقم منتقلی پر اجرت لینے کا حکم


سوال

1۔ایزی پیسہ اکاؤنٹ بنانے کا کیا حکم ہے؟ نیز کاروباری اکاؤنٹ اور عام (پرسنل) اکاؤنٹ کے حکم میں کوئی فرق ہے یا دونوں کا حکم یکساں ہے؟

2۔عام اکاؤنٹ  سے کسٹمر کا بل جمع کرانے یا رقم منتقل کروانے پر جب ہمارے اکاؤنٹ سے ایک یا دو روپے کٹتے ہیں، تو کیا ہم اس خدمت کے بدلے میں کسٹمر سے زیادہ رقم (مثلاً دس یا بیس روپے) وصول کر سکتے ہیں؟

جواب

1۔ایزی پیسہ اکاؤنٹ دراصل ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک (telenor micro-financing bank)کے تحت ایک ڈیجیٹل اکاؤنٹ ہے، جس میں صارف اپنی رقم جمع کروا سکتا ہے اور مختلف مالیاتی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم شرعی لحاظ سے قرض کے حکم میں ہے۔ فقہی اصول کے مطابق ہر وہ قرض جو نفع کا سبب بنے، سود کے زمرے میں آتا ہے۔

لہٰذا، اگر ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھولنے پر یا اس میں مخصوص رقم جمع کروانے کی شرط پر کمپنی کی جانب سے فری منٹس، ایم بی، کیش بیک یا دیگر مفت سہولیات فراہم کی جائیں، تو یہ مشروط نفع ہونے کی وجہ سے سود کے حکم میں آتا ہے، جو شرعاً ناجائز ہے۔​البتہ، اگر ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کوئی مخصوص رقم جمع کروانے کی شرط نہ ہو، اور کمپنی کی جانب سے کوئی مشروط نفع یا سہولت نہ دی جائے، تو صرف جائز مقاصد (جیسے رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی، موبائل لوڈ وغیرہ) کے لیے اس اکاؤنٹ کا استعمال جائز ہے۔​

2۔اگر آپ اپنی طرف سے بل جمع کرانے یا رقم منتقل کرنے کی خدمت انجام دیتے ہیں ،کمپنی کی طرف سے اس پر آپ کے لیے  کوئی اجرت طے نہیں ہے اور آپ  پہلے ہی لوگوں سے اس خدمت کی اجرت  کو متعین بھی کر لیتے ہیں  اور کمپنی یا ادارے کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے، تو ایسی صورت میں یہ اجرت لینا شرعاً جائز ہے۔

الاشباه والنظائر میں ہے:

"‌‌‌كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا ‌حرام."

(الفن الثانير: وهو فن الفوائد، ‌‌كل دين أجله صاحبه فإنه يلزمه تأجيله إلا في سبع، ص:226، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: ‌وفي ‌الدلال ‌والسمسار ‌يجب ‌أجر ‌المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط: سعيد)

فيض الباری میں ہے: 

"أجير ‌مشترك، ويكون المعقود عليه فيها عملا خاصا، فلا يستحق الأجرة إلا بعد عمله."

(كتاب البيوع، باب ثمن الكلب، ج:3، ص: 497، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وأما ‌شرائط ‌الصحة ‌فمنها ‌رضا ‌المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا."

(کتاب الاجارۃ، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها،ج:4،ص:411، ط؛دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144610101966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں