کیا میں اپنی بیٹی کا نام اِیزَل رکھ سکتا ہوں؟
اِیزِل (الف اور زاء کے نیچے زیر کے ساتھ) اس لکڑی کو کہتے ہیں جو تصویر سازی میں استعمال ہوتی ہے، معنی کے لحاظ سے یہ نام مناسب نہیں ہے، لہذا صاحبزادی کا نام صحابیات رضوان اللہ علیہن کے ناموں میں سےکسی صحابیہ کے نام پر رکھنا بہتر ہوگا، یاکوئی اچھابامعنی نام رکھ لیاجائے۔
مشکوۃ شریف میں ہے:
"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه."
(كتاب النكاح،باب الولي ...، 279/2، ط: رحمانية)
"اور حضرت ابوسعیداور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوتو چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے نیک ادب سکھائے (یعنی اسے شریعت کے احکام وآداب اور زندگی کے بہترین طریقے سکھائے تاکہ وہ دنیا وآخرت میں کامیاب وسربلند ہو)اور پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردے،اگر لڑکا بالغ ہو(اور غیر مستطیع ہو)اور اس کاباپ (اس کا نکاح کرنے پر قادر ہونے کے باوجود) اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکا برائی میں مبتلا ہوجائے(یعنی جنسی بے راہ روی کا شکار ہوجائے )تو اس کا گناہ باپ پر ہوگا۔"(مظاہرِ حق)
سنن أبی داود میں ہے:
"عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم."
(كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء،ج:4،ص:287،ط: المكتبة العصرية)
ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا تم اچھے اچھے نام رکھو۔"
المحیط البرہانی میں ہے:
"وفي الفتاوی: التسمية باسم لم یذکرہ اللہ تعالی في کتابه و لا ذکرہ رسول اللہ علیه السلام، و لا استعمله المسلمون تکلموا فیه و الأولی أن لاتفعل."
(کتاب الاستحسان والکراھیة، الفصل الثانی والعشرون في تسمیة الأولاد وکناھم 5/ 382 ط: دار الکتب العلمیة بیروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144609102382
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن