بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے احکام


سوال

1:طلا ق اور وفات کی عدت کب سے کب تک گزاریں ؟

2: عدت کے دوران  باہر نکلنا پڑےتو نکلنا  جائز ہے؟

3:عورت کے لیے عدت کے دوران کیا کیا پابندیاں ہیں؟

4:اگرعدت کی  ان پابندیوں پر عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟

5:اوراگر عدت کی  ان پابندیوں پر عمل نہ کرے تومرحوم شوہر کو  قبر میں عذاب ہوگا یا نہیں؟یا صرف عورت گناہ گار ہوگی؟

جواب

1: مطلقہ خاتون کی  عدت حمل نہ ہونےکی صورت میں تین ماہواریاں  ہیں  ،اگر طلاق کے وقت  حمل ہو تو  بچے  کی  پیدائش تک  عدت گزانا  واجب ہے، اور جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے، اگر شوہر کا انتقال چاند کی یکم تاریخ کو ہوا ہو تو چار ماہ قمری مہینوں کے اعتبار سے شمار ہوں گے خواہ انتیس کا مہینہ ہو، لیکن اگر درمیان کی تاریخوں میں انتقال ہوا ہو تو پھر اس کی عدت میں پورے ایک سو تیس دن شمار کئے جائیں گے۔اگر وفات کے وقت  حمل ہو تو  بچے کی پیدائش تک  عدت گزانا واجب ہے۔

2: عدت  وفات  عورت اپنے خاوند کے گھر میں گزارے گی،شدید مجبوری اور ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے،اگر کوئی  ایسی شدید مجبوری  لاحق ہوجائے کہ گھر سے نکلے بغیر کوئی چارہ نہ ہو؛  فاقہ آجائے یا   ایسی  بیماری آجائے  کہ  ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہو  اور گھر پہ انتطام نہ ہوسکتا ہو،یا گھر اتنا بوسیدہ ہوجائےکہ گرنے کے قریب ہو،تو  پردہ کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی البتہ اگر معاش کے لیے نکلنا ضروری ہوتو دن  کے اوقات میں نکلے،سورج غروب  ہونے سے قبل گھر لوٹ آئے اور مطلقہ خاتون کا  نفقہ چونکہ شوہر کے ذمہ ہے، اس لیے معاش  کی ضرورت کی  خاطر گھر سے نہ نکلے،سوائے اس صورت کے  کہ شوہر نفقہ نہ دے اور اس کے علاوہ بھی گزارہ کی صورت نہ بن سکےتو دن کے اوقات میں نکلنے کی اجازت ہوگی۔

3: دوران عدت مطلقہ ثلاثہ (یعنی جس کو تین طلاقیں ہوچکی ہوں) اور معتدۃ الوفات (یعنی جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو) کے لئے بننا سنورنا جیسے اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، سرمہ لگانا، سر پر تیل لگانا وغیرہ منع ہے، عام گھریلو کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ البتہ مطلقہ رجعیہ (یعنی وہ عورت جسے ایک یا دو طلاقیں رجعی واقع ہوئی ہوں) اس کے لئے یہ ممانعت نہیں،  بلکہ اس کو زیب و زینت اختیار کرنی چاہیے تاکہ شوہر رجوع کرے۔

4:عدت میں ان تمام ممنوعات سے بچنا لازم ہے، اگر ان پابندیوں پر عمل نہیں کیا تو گناہ گار ہوگی۔

5: عدت کی ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سےشوہر کو عذاب نہیں ہوگا،ہاں اگر شوہر نے زندگی میں اس کی ترغیب دی کہ میرے مرنے کے  بعد تم عدت مت گزارنا  تو اس صورت میں شوہر بھی گناہ گار ہوگا ورنہ نہیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج............إذا وجبت العدة بالشهور في الطلاق والوفاة فإن اتفق ذلك في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلة، وإن نقص العدد عن ثلاثين يوما، وإن اتفق ذلك في خلاله فعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإحدى الروايتين عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يعتبر في ذلك عدد الأيام تسعون يوما في الطلاق وفي الوفاة يعتبر مائة وثلاثون يوما كذا في المحيط."

(كتاب الطلاق،الباب الثالث عشر، ج: 1، ص: 527، ط: دار الفكر بيروت)

وایضاً فیہ:

"على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد في عدتها كذا في الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر والثوب الأحمر وما صبغ بزعفران إلا إن كان غسيلا لا ينفض ولبس القصب والخز والحرير ولبس الحلي والتزين والامتشاط كذا في التتارخانية...........المتوفى عنها زوجها تخرج نهارا وبعض الليل ولا تبيت في غير منزلها كذا في الهداية......المعتدة لا تسافر لا للحج ولا لغيره ولا يسافر بها زوجها عندنا."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر في الحداد، ج: 1، ص: 533، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں