بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران کورٹ جانے کا حکم


سوال

میری طلاق ہو چکی ہے،میری دو بیٹیاں ہیں ،میرا سامان جہیز واپس نہیں کیا جس کی وجہ سے کورٹ میں کیس کیا ہے،میرے ساتھ میری والدہ کورٹ جاتی ہیں،اب میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور میری والدہ عدت میں بیٹھی ہیں۔ مسلہ یہ ہے کہ میرے ساتھ کورٹ جانے والا کوئی نہیں میری والدہ وکیل سے بات کرتی ہیں۔تو کیا والدہ عدت کے دوران پردے کی حالت میں میرے ساتھ کورٹ جا سکتی ہیں؟کیونکہ میرے ساتھ کورٹ جانے والا کوئی نہیں اور میں اکیلے کورٹ جا نہیں سکتی۔ 

جواب

واضح رہے کہ  معتدہ عورت کے لیے اپنے گھر کے اندر ہی عدت گزارنا ضروری ہے بغیر کسی شرعی عذر کے گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر انتہائی مجبوری  ہو، عورت بیمار ہو ڈاکٹر کے پاس جانا ہو، یا اس کے گھر بسانے کے لیے کوئی اور کمانے والا نہ ہو ،یا گھر کے گر نے کا خطرہ ہو، یا اس کو گھر سے زبردستی نکالا  گیا ہو،   تو اس صورت میں اس معتدہ کے لیے باہر نکلنے کی گنجائش ہوگی  ، لہذا صورت مسئولہ  میں  سائلہ کی ماں کا سائلہ کے ساتھ کورٹ   جانے کے لیے عدت کے دوران  نکلنا کوئی شرعی  عذر نہیں ہے، اس لیے کورٹ جانے کے لیےدوران عدت گھر سے  باہر نکلنا جائز نہیں ہے، اب  کورٹ کی تاریخ کو  اپنی والدہ  کی عدت مکمل ہونے  تک کسی طریقے سے مؤخر کیا جا ئے،  لیکن اگر کورٹ کی  تاریخ کو  مؤخر کرنا ممکن نہ ہو،  اور نہ سائلہ کے لیے اپنی والدہ کے  علاوہ کورٹ جاکر وکیل سے بات کرنے کی کوئی اور صورت بن سکتی ہو ، اور عدالت میں پیش نہ ہونے کی صورت میں سائلہ کی حق تلفی اور اس پرظلم کا امکان ہو،تواس شدید مجبوری میں سائلہ کے ساتھ اس کی والدہ کے لیے عدت کے دوران  عدالت جاناجائز ہوگا ۔

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:

(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه." 

 (‌‌‌‌‌‌كتاب الطلاق ،باب العدة،فصل في الحداد ،ج:3، ص:536،ط: سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قوله: ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل" لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا. و الحاصل: أنّ مدار الحلّ كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لايحلّ لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها، كذا في "فتح القدير."

(باب العدة، ج:4، ص:255، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں