بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اینٹوں کو کرایہ پر لینے کا حکم


سوال

میرابھائی اپنےمکان کےقریب میں عارضی طورپرایک دوکان بنارہاتھا، تواس نےاپنےایک دوست سےاینٹوں کاایک ٹرک کرایہ پرتین سال تک کےلیےلےلیا، اور اپنےدوست سےیہ کہاکہ :تین سال بعد اینٹ واپس کروں گا، اب تین سال پورےہوئے، اورمیرابھائی دوکان برقراررکھناچاہتا ہے، تواس نےاینٹوں کےمالک سےکہاکہ :میں آپ کواینٹوں کی قیمت اداکرتاہوں ، لیکن تین سال کےکرایہ کےبقدر رقم کی میں قیمت کم اداکروں گا، جب کہ اینٹوں کامالک کہتاہےکہ :یاتودوکان گراکر مجھےصحیح سالم اینٹ واپس کردویااینٹوں کی پوری قیمت اداکرو۔

اب پوچھنایہ ہےکہ کیامیرابھائی اجارہ کوختم کرکےاینٹ خرید سکتاہے؟اگرخریدسکتاہےتواصل قیمت پرخریدےگایااصل قیمت میں سےکرایہ کی  رقم کم کرکےخریدےگا؟

اورکیایہ اینٹوں کاکرایہ پرلینادرست تھا؟

جواب

عقدِ اجارہ کی صحت کےلیےفقہاء کرام رحمہم اللہ نےکچھ شرائط بیان کی ہیں، جن میں سےاگرایک شرط بھی مفقود ہوتوپھروہ اجارہ درست نہ ہوگا، ان میں ایک شرط یہ ہےکہ عقد اجارہ ایسی چیز کاہوجس سےاجارہ کےذریعےفائدہ  حاصل کرنامعروف ومشہورہو،نیزعقدِاجارہ کےلیےیہ بھی ضروری ہےکہ جس چیز پراجارہ ہواہووہ چیزایسی ہوکہ اس کاعین صحیح سالم  برقراررہ سکتاہو، ورنہ اجارہ باطل ہوگا، اب صورتِ مسئولہ میں اینٹوں کاجواجارہ ہواتھا  چوں کہ اس میں مذکورہ دونوں باتیں مفقود ہیں اس لیےیہ اجارہ درست نہیں تھا، یہ اجارہ اجارۂ باطل تھا، اوراجارۂ باطل کاحکم یہ ہےکہ اس میں مستاجر(اجارہ پرلینےوالے)پرکوئی اجرت لازم نہیں ہوتی، لہذامذکورہ صورت میں مستاجرپرتین سالوں کی کوئی اجرت لازم نہیں،  اوراب یاتوایک ٹرک اینٹ واپس کرےیااس کی موجودہ قیمت اداکرے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الإجارة ويجري بها التعامل بين الناس؛ لأنه عقد شرع بخلاف القياس لحاجة الناس ولا حاجة فيما لا تعامل فيه للناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها والاستظلال بها؛ لأن هذه منفعة غير مقصودة من الشجر."

(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، 192/4، ط:دار الكتب العلمية)

وفيه أيضا:

"وإذا عرف أن الإجارة بيع المنفعة فنخرج عليه بعض المسائل فنقول: لا تجوز إجارة الشجر والكرم للثمر؛ لأن الثمر عين والإجارة بيع المنفعة لا بيع العين، ولا تجوز إجارة الشاة للبنها أو سمنها أو صوفها أو ولدها؛ لأن هذه أعيان فلا تستحق بعقد الإجارة، وكذا إجارة الشاة لترضع جديا أو صبيا لما قلنا، ولا تجوز إجارة ماء في نهر أو بئر أو قناة أو عين لأن الماء عين فإن استأجر القناة والعين، والبئر مع الماء لم يجز أيضا؛ لأن المقصود منه الماء وهو عين، ولا يجوز استئجار الآجام التي فيها الماء للسمك، وغيره من القصب والصيد؛ لأن كل ذلك عين فإن استأجرها مع الماء فهو أفسد وأخبث؛ لأن استئجارها بدون الماء فاسد فكان مع الماء أفسد ولا تجوز إجارة المراعي؛ لأن الكلأ عين فلا تحتمل الإجارة، ‌ولا ‌تجوز ‌إجارة ‌الدراهم، والدنانير ولا تبرهما وكذا تبر النحاس والرصاص ولا استئجار المكيلات والموزونات؛ لأنه لا يمكن الانتفاع إلا بعد استهلاك أعيانها."

(كتاب الإجارة، فصل في ركن الإجارة ومعناها، 175/4، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل وقد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة وقد يكون لجهالة البدل وقد يكون بشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد فالفاسد يجب فيه أجر المثل ولا يزاد على المسمى إن سمى في العقد مالا معلوما، وإن لم يسم يجب أجر المثل بالغا ما بلغ وفي الباطل لا يجب الأجر والعين غير مضمونة في يد المستأجر سواء كانت صحيحة أو فاسدة أو باطلة هكذا في الغياثية۔:

(كتاب الإجارة، الباب الخامس عشر في بيان ما يجوز من الإجارة وما لا يجوز، 439/4، ط:دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں