میری قابل کاشت زمین ہے،جس میں مکئی اور گندم کی فصل کاشت کی جاتی ہے،کافی تعداد میں بند رساری فصل ختم کردیتے ہیں۔صبح 6 بجے سے شام 6 بجےتک بندروں سے حفاظت کے لیے چوکیداری کرنا پڑتی ہےاورپھر ساری رات سوروں اور دیگر جنگلی جانوروں وغیرہ کے لیے چوکیداری کرنا پڑتی ہے۔براہِ مہربانی اسلامی قوانین کے تحت مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمادیں:
1۔پہلاسوال یہ ہے کہ کیامیں اس صورت میں بندروں کو گولی یا دیگر ذرائع سے مار سکتا ہوں؟
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ آوارہ بلیاں(جو گھروں میں نہیں پالی گئیں، بلکہ لوگ پھینک جاتے ہیں)اور کوّےگھر میں مرغیوں ، ان کے بچوں کو اور دیگر نقصانات پہنچاتےہیں،ان بلیوں اور کوّوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
3۔تیسرا سوال یہ ہےکہ اس زمین کو سیراب کرنے کے لیے پانی میسر نہیں ہےیعنی یہ بارانی زمین ہے،البتہ دوسری محنت یعنی دن رات جنگلی جانوروں سے بچانااور گوڈی وغیرہ کرناپڑتا ہے،ایسی صورت میں عشر (دسواں حصہ)ہوگا یا نصف عشر (بیسواں حصہ)ہوگا؟
1۔2۔از رُوئے شرع صرف موذی جانوروں کو جب کہ وہ ایذا رساں ہوں مارنے کی اجازت ہے،اس کے علاوہ عام حالات میں ایسے جانور جو ایذا رساں نہ ہوں، انہیں مارنا یا کسی بھی طرح سے ستانا گناہ ہے۔صورتِ مسئولہ میں چوں کہ بندر،سور، بلیاں اورکوےسائل کی فصلوں کو ایذاپہنچارہے ہیں، اب اگر سائل کےپاس ان سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لیےکوئی معقول صورت نہیں ہےتو سائل کے لیےمذکورہ جانوروں کو ایسے طریقے سے قتل کرنا کہ انہیں تکلیف نہ ہو مثلاً گولی سے مارنا یاچھری سے ذبح کرنا جائز ہے۔البتہ اگر ایذا نہ پہنچائیں تو محض ذاتی تسکین، لہو و لعب یا شکار کے لیے قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
3۔واضح رہے کہ اگر کوئی زمین بارانی ہو،یعنی وہ بارش سے سیراب کی جاتی ہو،تو اس زمین پر عشر (پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا،صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین چوں کہ بارانی ہے؛ لہذا اس کی پیداوار میں عشر(دسواں حصہ)کا نکالنا واجب ہوگا۔
نیز زمین کی پیداوار میں سے عشر یا نصف عشر نکالنے کا تعلق پانی کی سیرابی سے ہوتا ہے،پانی کے بدلنے سے حکم میں تبدیلی ہوتی رہتی ہےیعنی کھیتی عشری پانی سے سیراب کی گئی ہو تو عشر لازم ہوگااوراگر اس کے علاوہ پانی سے سیراب کیا گیا ہو تو نصف عشر لازم ہوگا،باقی مشقتوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
1۔2۔بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما غير المأكول فنوعان: نوع يكون مؤذيا طبعا مبتدئا بالأذى غالبا، ونوع لا يبتدئ بالأذى غالبا، أما الذي يبتدئ بالأذى غالبا فللمحرم أن يقتله ولا شيء عليه، وذلك نحو: الأسد، والذئب، والنمر، والفهد؛ لأن دفع الأذى من غير سبب موجب للأذى واجب فضلا عن الإباحة، ولهذا أباح رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل الخمس الفواسق للمحرم في الحل والحرم بقوله: صلى الله عليه وسلم «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل والحرم: الحية، والعقرب، والفأرة والكلب العقور، والغراب وروي والحدأة» وروي عن ابن عمر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «خمس يقتلهن المحل والمحرم في الحل والحرم: الحدأة، والغراب، والعقرب، والفأرة والكلب العقور» .
وروي عن عائشة رضي الله عنها قالت: «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل والحرم: الحدأة، والفأرة، والغراب، والعقرب، والكلب العقور» وعلة الإباحة فيها هي الابتداء بالأذى والعدو على الناس غالبا فإن من عادة الحدأة أن تغير على اللحم والكرش، والعقرب تقصد من تلدغه وتتبع حسه وكذا الحية، والغراب يقع على دبر البعير وصاحبه قريب منه، والفأرة تسرق أموال الناس، والكلب العقور من شأنه العدو على الناس وعقرهم ابتداء من حيث الغالب، ولا يكاد يهرب من بني آدم، وهذا المعنى موجود في الأسد، والذئب والفهد، والنمر فكان ورود النص في تلك الأشياء ورودا في هذه دلالة قال أبو يوسف: " الغراب المذكور في الحديث هو الغراب الذي يأكل الجيف، أو يخلط مع الجيف إذ هذا النوع هو الذي يبتدئ بالأذى " والعقعق ليس في معناه؛ لأنه لا يأكل الجيف ولا يبتدئ بالأذى.
وأما الذي لا يبتدئ بالأذى غالبا كالضبع، والثعلب وغيرهما فله أن يقتله إن عدا عليه ولا شيء عليه إذا قتله، وهذا قول أصحابنا الثلاثة وقال زفر: " يلزمه الجزاء " وجه قوله: أن المحرم للقتل قائم وهو الإحرام فلو سقطت الحرمة إنما تسقط بفعله."
(کتاب الحج،فصل بيان أنواع الصيد،ج:2،ص:197،ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی ہے:
"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحًا) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها وفي المبتغي: يكره إحراق جراد وقمل وعقرب،(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية".
(مسائل شتی، ج:6، ص:752، ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ثم ماء العشر ماء البئر حفرت في أرض العشر، وماء العين التي تظهر في أرض العشر، وكذلك ماء السماء، وماء البحار العظام عشري كذا في المحيط"
(کتاب الزکاۃ،الباب السادس في زكاة الزرع والثمار،ج:1،ص:186،ط:دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101259
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن