بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

احرام کی حالت میں پیپر ماسک لگانا


سوال

ایک  معلمہ  نے   عازمین ِحج خواتین کو  یہ مسئلہ سکھایا کہ حالت احرام میں چہرے کے  لیے (پیپر) کاغذ کا ماسک استعمال کیا جا سکتا ہے  (کپڑے کا نہیں) ۔ قبل از حج ان کی عقیدت مند ایک خاتون اب تک اپنے چہرے پر پیپر ماسک لگا کر تین عمرے ادا کر چکی ہیں  اور عنقریب آمدہ حج میں بھی اسی مشق کے تسلسل کو جاری رکھنے کے  لیے پر عزم ہیں ۔  درست شرعی رہنمائی  فرما ئیں!

جواب

واضح  رہے کہ  حالتِ  احرام  میں  چہرے  کا کھلا رکھنا ضروری ہے،چہرے کو ایسی  چیز سے چھپانا منع ہےجو چہرے کو چھورہی ہو ،اب چاہے وہ کپڑا ہو یاکوئی بھی ایسی چیز ہو جوعمومًا چہرہ ڈھانکنے کے  لیے استعمال ہوتی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  احرام  کی  حالت میں  چہرے  پر  (کپڑے ،کاغذ وغیرہ کا ) ماسک لگانا درست نہیں ہے ؛ اس   لیے کہماسک  چہرے کےساتھ لگاہوتا ہے اور چہرے  کے چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کو چھپالیتا ہے، چنانچہ  جس خاتون نے احرام کی حالت میں  ماسک لگا کر پورا ایک دن یا پوری ایک رات گزاری ہے   تو  اس  خاتون پر دم (از قسم بکرا ، دنبہ وغیرہ)دیناواجب ہےاور  اگر ماسک پہننے کی حالت میں ایک دن یا ایک رات  سے کم گزرا ہو  تو صدقہ) مقدارِصدقہ فطر ) دیناواجب ہے۔

نیز اگر   ماسک لگاکر تین عمرے کیے ہیں اور تینوں عمرے الگ ایام میں اداکیے ہیں اور پورا ایک دن یا پوری ایک رات ماسک کی حالت میں گزاری ہے تو  ہر عمرے کی جنایت کا الگ دم دینا لازم ہے اور ایک دن یا ایک رات سے کم کی صورت میں صدقہ واجب ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو لبس مخيطا) لبسا معتادا، ولو اتزره أو وضعه على كتفيه لا شيء عليه (أو ستر رأسه) بمعتاد إما بحمل إجانة أو عدل فلا شيء عليه (يوما كاملا) أو ليلة كاملة، وفي الأقل صدقة (والزائد) على اليوم (كاليوم) ... وتغطية ربع الرأس أو الوجه كالكل.

(قوله: أو ستر رأسه) أي كله أو ربعه، ومثله الوجه كما يأتي؛ بخلاف ما لو عصب نحو يده، وعطفه على لبس المخيط لأن الستر قد يكون بغيره كالرداء والشاش أفاده في النهر (قوله بمعتاد) أي بما يقصد به التغطية عادة.

قوله وفي الأقل صدقة) أي نصف صاع من بر، وشمل الأقل الساعة الواحدة أي الفلكية وما دونها خلافا لما في خزانة الأكمل أنه في ساعة نصف صاع وفي أقل من ساعة قبضة من بر. اهـ. بحر، ومشي في اللباب على ما في الخزانة، وأقره شارحه، واعترض بمخالفته لما ذكره الفقهاء. [تنبيه]

ذكر بعض شراح المناسك: لو أحرم بنسك وهو لابس المخيط وأكمله في أقل من يوم وحل منه لم أر فيه نصا صريحا، ومقتضى قولهم أن الارتفاق الكامل الموجب للدم لا يحصل إلا بلبس يوم كامل أن تلزمه صدقة. ويحتمل أن يقال إن التقدير باليوم باعتبار كمال الارتفاق إنما هو فيما إذا طال زمن الإحرام، أما إذا قصر كما في مسألتنا فقد حصل كمال الارتفاق فينبغي وجوب الدم، ولكن مع هذا لا بد من نقل صريح."

 (کتاب الحج،باب الجنایات فی الحج،2/ 547ط:سعید)

غنیۃ الناسک میں ہے:

"وأمّا تعصيب الرأس والوجه فمكروه مطلقاً موجبٌ للجزاء بعذر أو بغير عذر للتغليظ إلاّ أنّ صاحب العذر غيرُ آثم."

(غنیۃ الناسک، باب  الاحرام،فصل فی مکروہات الاحرام،ص:۹۱،ط:ادار ۃاالقرآن کراچی)

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:

"ويتقي ستر الرأس والوجه ولا يغطي فاه ولا ذقنه ولا عارضه، ولا بأس بأن يضع يده على أنفه كذا في البحر الرائق."

(کتاب الحج، الباب الثامن فی الجنایات، الباب الرابع فيما يفعله المحرم بعد الإحرام، ج:1، ص:224، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں