بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

احرام کی حالت میں واجب ہو نے والا دم حدود حرم میں دینا لازم ہے


سوال

 اگر کسی پہ دم واجب ہوجائے تو حدود حرم میں ہی دم ادا کرنا ضروری ہے یا پاکستان آکے بھی دم دے سکتا ہے؟

جواب

احرام کی حالت میں اگر کسی جنایت کی وجہ سے  دم لازم ہوجائے تو اس کا حدود حرم میں دم کا جانور ذبح کرنا ضروری ہے،حدود حرم سے باہر کسی اور جگہ دم کا جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے ،اس سے دم ادا نہیں ہوگا ۔

فتح القدیر  میں ہے :

"(والهدي لا يذبح إلا بمكة) لقوله تعالى {هديا بالغ الكعبة} [المائدة: 95] (ويجوز الإطعام في غيرها) خلافا للشافعي -رحمه الله -. هو يعتبره بالهدي والجامع التوسعة على سكان الحرم، ونحن نقول: الهدي قربة غير معقولة فيختص بمكان أو زمان. أما الصدقة قربة معقولة في كل زمان ومكان.

(قوله: ونحن نقول إلخ) وذلك أنه لما عين الهدي أحد الواجبات علم أنه ليس المراد مجرد التصدق باللحم وإلا لحصل التصدق بالقيمة أو بلحم يشتريه، بل المراد التقرب بالإراقة مع التصدق بلحم القربان، وهو تبع متمم لمقصوده فلا ينعدم الإجزاء بفواته عن ضرورة، فلذا لو سرق بعد الإراقة أجزأه، بخلاف ما لو سرق قبلها أو ذبح بالكوفة فسرق لا يجزيه؛ لأن القربة هناك لا تحصل إلا بالتصدق لاختصاص قربة الإراقة بمكان مخصوص أعني الحرم."

(کتاب الجنایات،فصل صید البر محرم علی المحرم،ج:3،ص:78،مصطفی البابی الحلبی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511101810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں