۱۔ اگر رات احتلام ہوجائے تو صبح اٹھ کر فجر کی نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
۲۔ اگر کسی نامحرم لڑکی کے ساتھ ملاپ وغیرہ کیا، پھر نماز پڑھنا چاہے تو غسل کرنا ضروری ہے یا ویسے نماز پڑھ سکتے ہیں؟
۱۔ صورتِ مسئولہ میں احتلام ہونے کی صورت میں فجر کی نماز سے پہلے غسل کرنا لازم ہے۔
۲۔ واضح ہو کہ کسی بھی نامحرم عورت سے بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اوربے تکلفی کرنا جائز نہیں،اور شہوانی گفتگو کرنا یا شہوت سے اسے چھونا وغیرہ تو اور برا ہے، نیز یہ عمل سخت فتنہ کاموجب ہے، جب کہ زنا اور سخت گناہ ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نا محرم خواتین کو چھونے پر بھی شدید وعید سنائی ہے، جیساکہ ایک حدیث مبارک میں بروایت حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:
"تم میں سے کسی شخص کے سر کو لوہے کے سوے سے زخمی کیا جائے یہ بہتر ہے، اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے"۔
بہر حال ملاپ (صحبت) خواہ نامحرم لڑکی سے ہو یا بیوی سے، اس سے بہر صورت غسل فرض ہوتا ہے، بغیر غسل کے نماز پڑھنا حرام ہے۔
در مختار میں ہے:
" (و) عند (إيلاج حشفة) هي ما فوق الختان (آدمي) احتراز عن الجني: يعني إذا لم تنزل وإذا لم يظهر لها في صورة الآدمي كما في البحر (أو) إيلاج (قدرها من مقطوعها) ولو لم يبق منه قدرها.۔۔۔(و) عند (رؤية مستيقظ) "
(كتاب الطهارة، ص27، ص28، دار الكتب العلمية)
معجم طبرانی میں ہے:
"عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأن يُطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لاتحلّ له." رواه الطبراني".
(باب المیم،211/20،ط:مکتبہ ابن تیمیہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507100336
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن