بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کی نماز کے بعد مبارکباد دینا اور معانقہ کرنا


سوال

  عید کے  نماز کے بعد مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنا کیسا ہے؟ جب کہ  اس کے  ساتھ عید  کی مبارکباد دی  جاتی ہے۔ عام طور پر  لوگ مبارکباد کے لیے ملتے ہیں، کیا مبارکباد کے لیے ملنا بھی صحیح نہیں؟

جواب

عید کی نماز کے بعد  مبارکباد دینے  کے لیے معانقہ کرنے میں  حرج نہیں،  البتہ لازم سمجھ کر  یا دین کا  حصہ سمجھ کر  کرنا درست نہیں۔

کفایت المفتی (3 /302)میں ہے:

''عیدین میں معانقہ کرنا یا عید کی تخصیص سمجھ کر مصافحہ کرنا شرعی نہیں، بلکہ محض ایک رسم ہے''۔

(کتاب الصلاۃ،چھٹا باب:عیدین کی نماز،عنوان:عید کے دن گلےملنا، ط: دارالاشاعت، کراچی)

نیز عید کی مبارک باد دینا اس کے بابرکت ہونے کی دعا دینا ہے ،جوکہ بذاتِ خود جائز ہے ، اس لیے عید کے موقع  پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا (اور مبارکباد  دینے  کے لیے ملنا) جائز، بلکہ مستحب عمل ہے۔  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو یہ دعا دیتے تھے کہ «تَقَبَّلَ اللّٰهُ مِنَّا وَ مِنْکُمْ صَالِحَ الْأَعْمَالِ»، (اللہ  تمہارے  اور  ہمارے نیک  اعمال قبول فرمائے )۔ علامہ  شامی  رحمہ اللہ  نے محقق  ابن  امیر حاج سے نقل کیا ہے کہ ہمارے شام میں لوگ ایک دوسرے کو  ”عید مبارک “ کہتے ہیں، تو اس کو بھی اس دعا کے عموم  میں شامل کیا جاسکتا ہے،  اس لیے جس شخص کے اعمال قبول ہوگئے تو وہ زمانہ اس کے لیے بابرکت ہوگیا ، اس لیے برکت کی دعا دینا جائز ہے،لیکن عید مبارک کہنا فرض یا واجب نہیں؛ اس لیے اس کو لازم  سمجھنا اور اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله : لاتنكر ) خبر قوله: "والتهنئة"، وإنما قال كذلك؛ لأنه لم يحفظ فيها شيء عن أبي حنيفة وأصحابه، وذكر في القنية: أنه لم ينقل عن أصحابنا كراهة، وعن مالك: أنه كرهها، وعن الأوزاعي: أنها بدعة، وقال المحقق ابن أمير حاج: بل الأشبه أنها جائزة مستحبة في الجملة، ثم ساق آثاراً بأسانيد صحيحة عن الصحابة في فعل ذلك، ثم قال: والمتعامل في البلاد الشامية والمصرية "عيد مبارك عليك" ونحوه، وقال: يمكن أن يلحق بذلك في المشروعية والاستحباب؛ لما بينهما من التلازم، فإن من قبلت طاعته في زمان كان ذلك الزمان عليه مباركاً، على أنه قد ورد الدعاء بالبركة في أمور شتى؛ فيؤخذ منه استحباب الدعاء بها هنا أيضاً" اهـ."

(2/169،ط:دارالفکر) 

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں