عید میلاد النبی پر بریلوی کا کھانا کھا سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ ہر انسان کو اختیار ہے کہ اپنے عمل کا ثواب بزرگوں کو پہنچائے، لیکن اس کام کے لئے کوئی وقت دن اور مہینہ مقرر کرنا بدعت ہے، جیسا کہ اس کے لئے محرم کو خاص کرنا یا ربیع الاول کو خاص کرنا، اور اس میں کھانا شیرنی تقسیم کرنا اور اس کو ثواب کا کام سمجھنا اور لازم قرار دینا یہ درست نہیں، البتہ بلا تخصیص یوم وماہ کھانا وغیرہ تقسیم کرنا اور اس کا ثواب ایصال کرنا جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں ماہ ربیع الاول میں کھانا پکانے اور کھلانے کا کوئی ثبوت صحابہ، تابعین اور سلف صالحین میں نہیں ملتا ، اگر یہ کوئی نیک کام ہوتا تو وہ یہ کام ضرور کرتے ، معلوم ہوا کہ یہ ایک بے اصل کام ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، لہذا اگر کوئی ربیع الاول میں کھانا پکانااور کھلا نا شر عاضروری سمجھ کر یہ کام کرتا ہے یا یوں سمجھتا ہے کہ خاص اس مہینہ میں ایسا کرنا ثواب ہو گا باقی مہینوں میں نہ ہوگا تو یہ بدعت ہے، اس سے پر ہیز لازم ہے،اور جو شخص ایسا سمجھ کر یہ کام نہیں کرتا تو اس کے لئے یہ کام اگر چہ فی نفسہ بدعت نہیں لیکن عوام میں چونکہ بدعات کا رواج ہے اور وہ غلط عقیدہ سے ایسا کرنے لگتے ہیں اسلئے صحیح العقیدہ اشخاص کو بھی اس سے پرہیز لازم ہے۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:
"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو باطل وحرام اه قال في البحر لوجوه منها أنه نذر لمخلوق ولا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك ومنها أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى كفر اللهم إلا أن يقول يا لله إني نذرت لك أن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الفقراء الذين بباب الإمام الشافعي رضي الله عنه أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجد هم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو بيان لمحل صرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار إذ مصرف النذر الفقراء وقد وجد ولا يجوز أن يصرف ذلك إلى غنى غير محتاج إليه ولا لشريف منصب لأنه لا يحل له الأخذ ما لم يكن محتاجا فقيرا ولا لذي نسب لأجل نسبه ما لم يكن فقيرا ولا لذي علم لأجل علمه ما لم يكن فقيرا ولم يثبت في الشرع جواز الصرف للأغنياء للإجماع على حرمة النذر للمخلوق ولا ينعقد ولا تشتغل به الذمة وأنه حرام بل سحت اه."
(کتاب الصوم، ج:1، ص:693، ط:دار الکتب العلمیه)
فتاوی شامی میں ہے:
"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام(قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقده ذلك كفر ."
(کتاب الصوم، ج:2، ص:439، ط:سعید)
قرآن کریم میں ہے:
{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ}[البقرة: 173]
اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
" یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلاً مٹھائی، کھانا وغیرہ جن کو غیراللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراکِ علت یعنی تقرب الی غیراللہ کی وجہ سے "ما اہل لغیر اللہ" کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے، اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے" ۔
( سورة البقرة ، ج:1، ص:424، ط:ادارۃ المعارف کراچی)
کفایت المفتی میں ہے:
میلاد کے موقع پر پکائے جانے والے کھانوں کا حکم :
(سوال) (1) جب کوئی صاحب و عظ یا مولود شریف فرماتے ہوں ، ان کے ارشاد پر حاضرین باآواز بلند درود شریف پڑھیں تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟ (2) ایک صاحب کہتے ہیں کہ جب درود شریف پڑھا جاوے تو آنحضرت سے بذات خود سنتے ہیں اورپڑھنے والے کو پہچانتے ہیں ، کیا یہ صحیح ہے ؟ (3) چند مسلمان چندہ جمع کر کے طعام پکاریں اور نیاز آں حضور علیہ الصلوۃ والسلام یا حضرت پیران پیرغوث پاک علیہ الرحمۃ کی دینا چاہیں تو جائز ہے یا نہیں ؟ اور وہ طعام صاحب نصاب اہل ثروت اور ہمسایہ اور خودصاحب چندہ کس کس کو کھانا جائز ہے ؟
(جواب ) (1) گرمی مجلس کے لئے واعظ کا بآواز بلند درود پڑھوانا اور حاضرین کا پڑھنا دونوں نا جائز ہیں، حضور ﷺ کا نام نامی سن کر سامعین کو خود درود شریف پڑھنا چاہئے، واعظ کہے یانہ کہے، اس کے کہنے کا انتظار نہ کرنا چاہئے۔
(2) حضور ﷺ کا بذات خود درود شریف سننا ثابت نہیں،ما ناکہ سیاحین کے ذریعے سے درود شریف حضور ﷺ کو پہنچایا جاتا ہے۔
(3) یہ کھانا اگر به نیت صدقہ و ایصال ثواب کھلایا جاتا ہے تو صاحب نصاب اور خود پکانے پکوانےوالے کو کھانا درست نہیں، صرف فقراء و مساکین کا حق ہے اور اس میں بھی التزام نہ ہونا چاہئے۔
(کتاب العقائد، ج:1، ص:151، ط:دار الاشاعت)
فتاوی رشیدیہ میں ہے:
رسول اللہ ﷺ کو ثواب پہنچانے کے لئے کھانا کھلانا:
( سوال ) شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ الدر الثمین فی مبشرات النبی الامی میں جو اپنے والد ماجد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب علیہ الرحمۃ سے نقل فرماتے ہیں، اخبر نی سیدی والدی قال كنت اصنع في ايام المولد طعاما صلة بالنبى صلى الله عليه وسلم فلم يفتح في سنة من السنين شئى اصنع به طعاما فلم اجد الا حمصا مقلياً فقسمتة بين الناس فرأيته صلى الله عليه وسلم بين يديه هذه الحمص متبهجا بشاشا. (1) فقط عبارت مذکورہ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بتعین یوم ولادت ایصال ثواب یا سرور ولادت میں اطعام الطعام وغیرہ جو کہ شاہ صاحب قدس سرہ کے معمولات میں سے تھا جائز و مستحب ہے اور باعث خوشنودی آنحضرت ﷺ اور جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ بھی اجتماع صلحاء یوم ولادت میں او اطعام الطعام کو مستحسن لکھتے ہیں ، حسن المقصد میں بایں وجہ مبتدعین استحان مولود مروجہ زمانہ پر استدلال کرتے ہیں اور قاعدہ شرع سے ایسی تعینات و تخصیصات حد بدعات میں شامل ہوتی ہیں ،لہذا مع تو صیح عبارت مذکورہ کے جواب سرفراز فرمادیں۔ فقط
( جواب ) ایصال ثواب ہر روز درست اور موجب ثواب ہے کوئی تاریخ و وقت شرع سے موقت نہیں روز ولادت اور روز وفات بھی درست ہے پس اگر کسی دن کو ضرو ی نہ جانے بلکہ مثل دیگر ایام کے جانے ایصال ثواب میں اور عوام کو بھی اسی طرح کے ایصال میں ضرر نہ ہو تو کچھ حرج نہیں، سب کے نزدیک درست ہے، پس شاہ عبدالرحیم صاحب کا یہ فعل ایسا ہی تھا تو اس سے کوئی حجت نہیں لا سکتا اپنے بدعت زمانہ پر اور پھر وہ طعام ایصال ثواب کا تھا کہ صلہ بالنبی کا لفظ موجود ہے اس میں نہ کوئی سر در ولادت کا کلمہ ہے نہ اجتماعی ذکر ولادت کے واسطے، پس اس میں کوئی حجت جواز مولد کی نہیں اور سیوطی کے وقت میں بھی ہمارے زمانہ جیسی بدعت نہ ہوئی تھی، براہین قاطعہ کو دیکھو اس میں سیوطی کا مقصد مفصل لکھا ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔
(کتاب العلم، ص:147، ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام)
فتاوی عزیزی میں ہے:
سوال : ربیع الاول میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے کھانا پکانا اور اس کا ثواب حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچانا شر عا صحیح ہے یا نہیں اور ایسا ہی محرم میں کھانا پکا کر اس کا ثواب حضرت امام حسین کو اور دیگر ال اطہار سید مختار کو پہنچانا صحیح ہے یا نہیں ؟
جواب : انسان کو اختیار ہے کہ اپنے عمل کا ثواب بزرگوں کو پہنچائے لیکن اس کام کے لئے کوئی وقت دن اور مہینہ مقرر کرنا بدعت ہے، البتہ اگر کوئی نیک کام ایسے وقت میں خاص کر کے کرے کہ اس وقت میں ثواب زیادہ ہوتا ہے تو اسمیں مضائقہ نہیں ، مثلا ماہ رمضان شریف میں کہ اس ماہ مبارک میں بندہ مؤمن جو نیک کام کرتا ہے اس عمل کا ثواب ستر درجہ زیادہ ہوتا ہے، تو کوئی عمل نیک خاص کر کے زیادتی ثواب کی نیت سے اس ماہ مبارک میں کرے تو اسمیں کوئی قباحت نہیں، بلکہ بہتر ہے، اس واسطے کہ خود حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی ترغیب فرمائی ہے، چنانچہ به عمل حضرت امیر المؤمنین علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کے قول سے ثابت ہے اور جس چیز کے بارے میں صاحب شرع کی جانب سے ترغیب اور تعین وقت کی ثابت نہیں وہ عبث ہےاور خلاف سنت ہے اور مخالفت سنت کی حرام ہے، یہ ہرگز جائز نہیں البتہ اگر چاہے تو خفیہ طور پر خیرات کرے جس دن ہو سکے، تاکہ ظاہر ہونے سے رسم نہ قرار پائے ۔
(ج:1، ص:199، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101659
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن