بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی گھر میں نامحرم سے پردہ کرنے کا طریقہ


سوال

میرے بھائی کی ابھی نئی نئی ایک معلمہ کے ساتھ شادی ہوئی ہے، میری بھابھی بالکل الگ الگ رہتی ہیں،اور گھر میں کسی کے ساتھ میل جول نہیں رکھتیں ،اور ہر وقت پردہ اور گھونگھٹ میں رہتی ہیں،جس کی وجہ سے گھر والوں کو  کافی پریشانی کا سامنا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ  جوائنٹ فیملی رہتے ہوئے بھابھی بہن وغیرہ کے ساتھ میل جول اور شرعی پردہ کی کیا صورت ہوگی؟

نیز مذکورہ مسئلہ میں میری بھابھی کا مذکورہ عمل جس کی وجہ سے گھر والوں کو پریشانی کا سامنا ہے،شرعاًاس کا کیا حکم ہے؟بات چیت بھی نہیں کرتیں،اور جواب بھی نہیں دیتیں،ہر وقت کمرے میں رہتی ہیں۔

جواب

اجتماعی گھر (جوائنٹ فیملی جس میں عورت کے نامحرم یعنی دیور، جیٹھ بھی رہتے ہوں) میں بھی پردہ کا حکم ختم نہیں ہوتا، بلکہ پردہ کرنا لازمی اور ضروری ہوتا ہے،البتہ ایسے گھر میں چونکہ چہرہ کا نقاب کر کے پردہ کرنا مشکل ہوتا ہے،توشرعاًاس بات کی گنجائش ہے کہ عورت کام کاج کے دوران سرپربڑی چادر یا دوپٹہ رکھ کر کام کرے،اگرنامحرم کے آنےکامحسوس ہو تواپنا رخ دوسری طرف کر لے،اور نامحرموں کو اس بات کی پابندی کرنی چاہیے کہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنی آمد کے بارے میں آگاہ کریں،خواہ بیل بجا کر یا کھنکھار کر،پھر بھی اگر غیر ارادی نگاہ پڑ جائے،تو اس پر عنداللہ مؤاخذہ نہیں ہوگا، لیکن اس بات کا  خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ نامحرم رشتہ داروں کے ساتھ خلوت میں بالکل اختلاط نہ ہو، اور بے جا ہنسی مذاق سے بھی اجتناب ہو،اسی طرح اکھٹے محرم نامحرم بیٹھ کر کھانا کھانے سے اجتناب بھی ضروری ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

(1) دیور ، جیٹھ وغیرہ سے پردہ (2) اپنوں سے  گھونگھٹ کا پردہ

(سوال) (1) شوہر کے مکان میں شوہر کی والدہ پر اور کلاں و خور و بھی رہتے ہیں اور حیثیت اتنی نہیں ہے کہ دوسرے مکان میں رہیں، لیکن زوجہ اور اس کے والدین ان کے سامنے آنے کو حرام سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے سخت تکلیف ہوتی ہے، اس حال میں عورت کا تشدد کہاں تک صحیح ہے ؟

(2) اب تک ہمارے خاندان میں پردے کا یہ طریقہ رہا ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے  فقط گھونگھٹ اور آنکھوں کی شرم کو ہی کافی سمجھتے ہیں، لیکن دور کے رشتہ داروں سے باقاعدہ پر وہ ہوتا ہے، قریبی رشتہ داروں سے سائل کی مراد ماموں، چچاو پھو پھی زاد بھائی ، ماموں زاد بھائی، بھانجہ ، خالہ زاد بھائی، بھتیجہ ہیں، اور یہ سب حقیقی ہیں، ان کی ہر وقت آمد و رفت رہتی ہے، ان کی روک تھام میں آپس میں قطع تعلق کا سخت خطرہ ہے، اس کو دیکھتے ہوئے شوہر کی خواہش ہے کہ قریبی رشتہ داروں سے فقط گھونگھٹ نکال لیا کرو، اس پر عورت کہتی ہے کہ ہم کو خدا اور رسولﷺ اور والدین کی جدائی کا ڈر ہے، اور والدین کی جدائی پر شوہر کی جدائی کو ترجیح دیتی ہے، تو یہ شوہر کی خواہش ان موانعات اور مضرات پر نظر کرتے ہوئے کہاں تک صحیح ہے، ویسے تو شوہر بھی بھی پردے کا سختی سے حامی ہے۔

(جواب ٥٣٠) (۱) عورت کا حق ہے کہ اس کو ایسے مکان میں رکھا جائے جس میں شوہر کے اقارب نہ ہوں،دیور اور جیٹھ کے سامنے ہونے سے اگر زوجہ انکار کرتی ہے تو اس انکار میں وہ حق بجانب ہے۔

(۲) ہاں گھونگھٹ سے رہنا جواز کے لئے کافی تو ہے، لیکن گھونگھٹ کا التزام ایک گھر میں رہ کر ہمیشہ کر نادشوار ہے،جن لوگوں سے نکاح جائز ہے وہ سب غیر محرم ہیں اور ان سے پردہ کرنے کا عورت کو حق ہے۔ 

(کتاب الحجاب،ج:5،ص:355،354،ط:دار الاشاعت کراچی)

وفیہ ایضاً:

دیور سے پردہ کرنے پر شوہر کے والدین کی ناراضی صحیح نہیں

(سوال) ایک شخص نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی زوجہ کو پردہ شرعی دیا ہے، حتی کہ اپنے بڑے بھائی کو ادب اور آرام سےشادی کے کچھ عرصہ بعد  پردہ کا حکم شرعی سنا کر پردہ کر دیا ہے، چونکہ یہ بہت عرصے سے آباواجداد میں پردہ نہ تھا۔ لہذا پر دے کی وجہ سے والدہ صاحبہ سخت ناراض ہو گئی ہیں کہ کہ تو اپنے بھائی سے پردہ نہ کراناورنہ میں تم سے جدا ہو جاؤں گی۔ اب عرض یہ ہے کہ اس وجہ سے والدہ صاحبہ کا ناراض ہو جانا قیامت میں کیسا ہو گا ؟

(جواب ٥٣١) حدیث شریف میں شوہر کے بھائی کو عورت کے لئے موت سے تعبیر فرمایا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پردہ کر نالازم ہے تو اس شخص نے شریعت کے مطابق کام کیا ہے اس پر والدہ کی ناراضگی اس کے حق میں مضر نہیں ہے۔

(کتاب الحجاب،ج:5،ص:355،ط:دار الاشاعت کراچی)

وفیہ ایضاً:

دیور اور خسر کے ساتھ اکٹھے مکان میں رہنا کیسا ہے

(سوال) ایک مکان میں چار بھائی اور ان کے والدین اکٹھے رہتے ہیں۔ بھائیوں میں سے ایک نابالغ اور تین بالغ۔ دو کی شادی ہو گئی۔ مکان تنگ ہونے کی وجہ سے اس میں حصے نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں خورد نوش میں بھی جدائی نا ممکن ہے۔ کیونکہ کوئی روز گاری ، کوئی طالب علم ، کوئی بے روزگار اور بسا اوقات ہر ایک بھائی کو اندر جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی کوئی چیز مانگی۔ کوئی بات کی کھانا کھانا وغیرہ ضروریات تمدن روز مرہ واقع ہوتے رہتے ہیں۔ اب پردہ کس طرح کرنا چاہئے، وجہ ،و کفین، ور جلین، کی استثنا جائز ہے یا نہیں جواز کی  صورت میں قباحت یہ ہے کہ  انسان کے چهرہ  دیکھنے میں ہی بد خیالی پیدا ہوتی ہے، اور عدم جواز کی صورت میں گھر کے کاروبار مشکل ہے، اس کے علاوہ بسا اوقات بیبیاں دوسرے بھائیوں کی نظر میں پڑ جاتی ہیں۔

 (جواب ٥٣٢ ) ایسی حالت میں عورتوں کو گھر میں احتیاط سے رہنا اور حتی الامکان کھلے منہ سامنے ہونے سے بچنا لازم ہے ۔ امکانی کوشش کر لیں اور مجبوری سے احیانا سا منا ہو جائے تو صفائی قلب کی حالت میں اس کی معافی کی امید ہو سکتی ہے۔

(کتاب الحجاب،ج:5،ص:356،355،ط:دار الاشاعت کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:

عورت گھر کے نامحرم افراد سے پردہ کیسے کرے؟

سوال : چند بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں ، ہر ایک کے لئے علیحدہ مکان بنانے کی استطاعت نہیں ، ایسی صورت میں عورت پردہ کرنے کی کیا تدبیر اختیار کرے ، جبکہ اسے گھر میں مختلف کام سرانجام دینے پڑتے ہیں اور نامحرم سے بات کرنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے ۔

جواب:شرعی پردہ اللہ تعالیٰ کا قطعی حکم ہے ، اگر قلب میں کچھ فکر آخرت ہو تو اس پر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں ، اس کے لئے علیحدہ گھر ہونا ضروری نہیں ، چہرہ چھپانا اور بلا ضرورت بات کرنے سے احتراز ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ممکن ہے ، بقدر ضرورت بات کرنے کی گنجائش ہے ، اس گنجائش سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر بلا ضرورت گپ شپ لگانے یا بالکلیہ پردہ ترک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ، عورت گھونگٹ کر کے گھر کے سارے کام کر سکتی ہے، تفصیل و غظ شرعی پردہ میں ہے۔

(مسائل شتی،ج:9،ص:37،ط:ایچ ایم سعید)

خطبات حکیم الامت میں ہے:

 الغرض عورتوں کو نامحرم عزیزوں سے گہرا پردہ کرنا چاہئے ، ہاں جس گھر میں بہت سے آدمی رہتے ہوں جن میں بعض نامحرم ہوں اور بعضے محرم اور گھر تنگ ہو، اور پردہ کرنے کی حالت میں گزر مشکل ہو۔ ایسی حالت میں نامحرم عزیزوں سے گہرا پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ایک گھر میں اس طرح نباہ ہو سکتا ہے اس صورت میں نامحرموں کے سامنے بقدر ضرورت چہرہ کا کھولنا جائز ہے مگر باقی تمام بدن سر سے پیر تک لپٹا ہوا ہونا چاہئے ۔ کفوں کے چاک سے ہاتھ نہ جھلکیں ۔ گریبان کھلا ہوا نہ رہے بٹن اچھی طرح لگے ہوئے ہوں تا کہ گلا اور سینہ نہ جھلکے، دو پٹہ سے تمام ستر لپٹا ہوا ہو کہ ایک بال بھی باہر نہ رہے۔ اسطرح بدن کو چھپا کر ان کے سامنے منہ کھول کر گھر کا کام کاج کر سکتی ہیں ( اور بہتر یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی گھونگھٹ کی عادت رکھیں کھلم کھلا ان کے سامنے چہرہ ظاہر نہ کریں  )

(حقوق الزوجین، الکمال فی الدین للنساء، پردہ میں کوتاہی، ج:20، ص:93،92، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)

 خطبات الرشيدمیں ہے:

شرعی پردہ کے لئے الگ مکان ضروری نہیں:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کئی بھائی یا بہت سے رشتہ دار ایک ساتھ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں، الگ مکان لینے کی گنجائش نہیں اس لئے پردہ مشکل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شرعی پردہ کے لئے الگ مکان لینے کی کوئی ضرورت نہیں، شریعت بہت آسان ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر بہت وسیع ہے، وہ بندوں کو تکلیف اور تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے، بلکہ راحت وسہولت میں رکھنا چاہتے ہیں، شرعی پردہ کے بارے میں ان کی دی ہوئی سہولتوں اور کرم نوازی کی تفصیل سنیں :

1)ایسے حالات میں خواتین ذرا ہوشیار رہیں، بے پردگی کے مواقع سے حتی الامکان بچیں، لباس میں احتیاط رکھیں بالخصوص سر پر دوپٹہ رکھنے کا اہتمام رکھیں۔

2)مرد آمد و رفت کے وقت ذرا کھنکار کر خواتین کو پردہ کی طرف متوجہ کر دیں، بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے غیر محرم رشتہ دار سمجھانے کے باوجود گھر میں کھنکار کر آنے کی احتیاط نہیں کرتے، اچانک سامنے آجاتے ہیں، آمد و رفت کا یہ سلسلہ ہر کی وقت چلتا ہی رہتا ہے، ان سے پردہ کرنے میں ہمیں بہت مشکل پیش آتی ہے، ایسے حالات میں خواتین جتنی احتیاط ہو سکے کریں، اسے جہاد سمجھیں، جتنی زیادہ مشقت برداشت کریں گی اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا۔

3)غیر محرم مرد کی آمد پر خواتین اپنا رخ دوسری جانب کر لیں۔

4)اگر رخ دوسری جانب نہ کر سکیں تو سر سے دوپٹہ سرکا کر چہرہ پر لٹکا لیں۔

5)بلا ضرورت شدیده غیر دیدہ غیر محرم سے بات نہ کریں۔

6)کسی غیر محرم کی موجودگی میں خواتین آپس میں اپنے محارم کے ساتھ بے حجابانہ بے تکلفی کی باتوں اور ہنسی مذاق سے پر ہیز کریں۔

ان احتیاطوں کے باوجود اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم کی نظر پڑ جائے تو معاف ہے، بلکہ اس طرح بار بار بھی نظر پڑتی رہے، ہزار بار اچانک سامنے ہو جائے تو بھی سب معاف ہے، کوئی گناہ نہیں، اس سے پریشان نہ ہوں، جو کچھ اپنے اختیار میں ہے اس میں ہرگز غفلت نہ کریں اور جو اختیار سے باہر ہے اس کے لئے پریشان نہ ہوں، اس لئے کہ اس پر کوئی گرفت نہیں، ہزاروں بار بھی غیر اختیاری طور پر ہو جائے تو بھی معاف، وہاں تو معافی ہی معافی ہے۔ دیکھئے رب کریم کا کتنا بڑا کرم ہے، مگر ان کی اس مہربانی اور معافی کو سن کر نڈر اور بے خوف نہ ہو جائیں جس حد تک احتیاط ہو سکتی ہے اس میں ہرگز ہرگز کوتا ہی نہ کریں، ورنہ خوب سمجھ لیں کہ جس طرح وہ رب کریم شکر گزار اور فرمانبردار بندوں پر بہت مہربان ہے، اسی طرح ناقدروں، ناشکروں اور نافرمانوں پر اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے۔ 

(شرعی پرده، ج:6 ، ص:146،145،144 )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں