بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوہ،والدہ،دوبیٹیوں اورسات بہنوں میں میراث کی تقسیم


سوال

1۔میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے،ان کے ورثاء میں،ایک بیوہ،والدہ، دو بیٹیاں اور سات بہنیں ہیں،مذکورہ ورثاء میں ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟نیز میرے شوہر نے کچھ حق مہر ادا کردیا تھااور کچھ ابھی باقی ہے،تو وہ کون ادا کرے گا؟اسی طرح مرحوم کے ذمہ کسی کا کچھ ادھار ہے،وہ کون ادا کرے گا؟

2۔مرحوم کی ایک بیٹی 13 سال اور دوسری بیٹی 11 سال کی ہے،ان کا حصہ کس کے پاس رکھا جائے گا؟جب کی میں نے دوسرا نکاح کرلیا ہےاور بیٹیاں دونوں میرے پا س رہ رہی ہیں،البتہ خرچہ شوہر کے گھر والے برداشت کر رہے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم   کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسےباقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقو لہ  کو168 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 21 حصے،اس کی والدہ کو 28 حصے،اس کی ہر ایک بیٹی کو 56 حصے اور  اس کی ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:مرحوم:168/24

بیوہوالدہبیٹیبیٹیبہنبہنبہنبہنبہنبہنبہن
34161
212856561111111

یعنی 100 فیصد میں سے مرحوم کی بیوہ کو  12.5فیصد،اس کی والدہ کو 16.666فیصد، اس کی ہر ایک بیٹی کو 33.333فیصد اور اس کی ہر ایک بہن کو 0.595فیصد ملے گا۔

نیز مہر کی حیثیت قرض کی ہے،لہذامرحوم شوہر  کی میراث جس کے قبضہ میں ہو اس کے ذمہ لازم ہے کہ ترکہ میں سے مرحوم کے کفن دفن کے اخراجات کو  نکالنے کے بعد بقیہ مال میں سےسب سے پہلےسائلہ کے بقیہ حق مہر اور  مرحوم  کے قرضوں کو ادا کرے،پھراس کے بعد مابقیہ مال کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

2۔واضح رہے کہ  کسی  بچے  کے باپ کے انتقال کے بعد اُس کے مالی معاملات کا ذمہ دار وہ شخص ہوتا ہے جس کو  باپ نے انتقال سے پہلے مقرر کیا ہو، اسے اصطلاح میں ’’وصی‘‘ کہتے ہیں، اگر ایسا کوئی ’’وصی‘‘ مقرر نہ کیا ہو تو بچے کا ولی  اس کا دادا ہوتا ہے، اگر دادا نہ ہو تو  دادا کا مقرر کردہ شخص یعنی ’’وصی‘‘ اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے، اگر ایسا بھی نہ ہو تو  قاضی بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار مقرر کرے گا، اور قاضی کی عدمِ موجودگی کی صورت میں  خاندان کے  نیک اور معززلوگ جس شخص  کو بچے کے مالی معاملات  دیکھنے کے لیے مقرر کر دیں وہی اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہو گا۔

صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ بچیوں کے دادا حیات نہیں ہے ،لہذا اگر بچیوں کے والد  یا دادانے کوئی وصی مقرر کیا ہو تو  بچیوں کا مال  اس کے حوالے کیا جائے گا،اور اگر کوئی وصی  مقرر نہیں کیا ہے تو خاندان کے لوگ اگر  آپ   کو سرپرست مقرر کردے  اور وہ بچیوں کا فائدہ اسی میں سمجھیں تو آپ کے لیےبطور سرپرست بچیوں کے حصوں کواپنے قبضہ میں لیناجائز ہوگا،اور آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ بچیوں کے مال کو مکمل امانت داری کے ساتھ ان ہی کی ضروریات میں صرف کرے،بچیوں کی  ضروریات  کے علاوہ اور اعتدال سے زائد خرچ کرنے کی آپ کواجازت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم تقدم دیونه التي لھا مطالب من جهة العباد."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:760، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعصبة مع غيره وهي كل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى كالأخوات لأب وأم أو لأب يصرن عصبة مع البنات أو بنات الابن، هكذا في محيط السرخسي"

(کتاب الفرائض،الباب الثالث فی العصبات،ج:6،ص:451،ط:دارالفکر بیروت)

وفیه ایضا:

 

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لايسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء."

(کتاب النکاح،الباب السابع فی المھر،ج:1،ص:303،ط:دارالفکر بیروت)

وفیه ایضا:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين۔۔۔والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق۔۔۔وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر في الحضانة،ج:1،ص:542،ط:دارالفکر بیروت)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما ترتيب الولاية فأولى الأولياء الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ثم الجد ثم وصيه ثم وصي وصيه ثم القاضي ثم ‌من ‌نصبه ‌القاضي وهو وصي القاضي وإنما تثبت الولاية على هذا الترتيب لأن الولاية على الصغار باعتبار النظر لهم لعجزهم عن التصرف بأنفسهم، والنظر على هذا الترتيب؛ لأن ذلك مبني على الشفقة وشفقة الأب فوق شفقة الكل.۔۔۔وليس لمن سوى هؤلاء من الأم والأخ والعم وغيرهم ولاية التصرف على الصغير في ماله؛ لأن الأخ والعم قاصرا الشفقة."

(كتاب البيوع ،فصل في ترتيب الولاية، ج:5،ص:155،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال [٢٢٦٦] : بیوہ سے چار بچے ہیں اور وہ سب کے سب نابالغ ہیں، بیوہ ان بچوں کو جبر یہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے اور ان کے حصہ کا ترکہ بھی اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے۔ ان بچوں کو ان کے چچابیوہ کی مرضی کے خلاف اگر اپنی کفالت میں رکھیں ، یا ان کے سامان ترکہ کی حفاظت کریں تو کیسا ہے؟

الجواب حامداً ومصلياً :

بچہ سات سال کی عمر تک تو والدہ ہی کے پاس رہنا چاہئے ، پھر اس کی تعلیم وغیرہ کی غرض سے چچا تر بیت کریں، پھر بھی والدہ سے ملنے پر کوئی پابندی عائد نہ ہو۔ والد مرحوم کے ترکے میں جو کچھ بچوں کا حصہ ہے اگر اس کی حفاظت چچا بخوبی کرسکیں تو چچا کے پاس رہے اگر والدہ زیادہ حفاظت کرسکے تو والدہ کی نگرانی میں رہے، اس کو خاندان کے بڑے اور تجربہ کار حضرات باہمی مشورہ سے تجویز کرلیں کہ بچوں کے حق میں کیا صورت زیادہ مفید اور قابل اطمینان ہے کہ ان کا مال کس کے پاس رہنا چاہئے۔"

(  باب الحضانۃ، ج:13،ص:577،ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں