بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عنین شوہر سے خلاصی کا طریقہ


سوال

میری شادی فروری 2018ء کو ہوئی،جب میری شادی ہوئی، تب میری عمر 15 سال تھی،میرے شادی کو 6 سال ہوگئے ہیں،اب میری عمر 22 سال ہے، میرے شوہر کی عمر 32سال ہے،شادی کی پہلی رات سے  ہم دونوں کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا اور آج تک یہی مسئلہ برقرار ہے،وہ قدرت نہیں رکھتے،اپنے والد صاحب کی زندگی میں بھی میں ان کے پاس یہ مسئلہ لے کر گئی تھی،تو انہوں نے مجھے سمجھا کر واپس بھیج دیا تھا کہ اس کا علاج کروادوں گا، لیکن کوئی فرق نہیں آیا،پھر والد کے انتقال کے بعد میں اپنی والدہ کے گھر آگئی تھی، کیوں کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی،لیکن میرے شوہر مجھے اپنی بہن کے ہمراہ منا کر گھر لے گئے تھے کہ علاج کروں گا،اس کے بعد مجھے میرے شوہر نے کہا کہ میں نے میڈیکل ٹیسٹ کروائے ہیں،جن کے نتیجہ کا مجھے آج تک علم نہیں ہوسکا،اس کے بعد بھی یہی مسئلہ برقرار رہا اور ہمارے ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوسکے،پھر میں کچھ وقت کے بعد پھر اپنی والدہ کے گھر آگئی، کیوں کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی کیوں کہ وہ میرا حق زوجیت شادی کی پہلی رات سے آج تک ادا کرنے سے قاصر ہے،پھر میرے شوہر اور ان کی بہن مجھے منا کر اس بات پر لے گئے کہ مجھے تین ماہ کا وقت دے دو،میں اپنا علاج کروں گا اور یہ شکایت دور کروں گا،اور اگر میں تمہاری شکایت دور نہیں کرسکاتو جیسا تم لوگ چاہتے ہوں،میں ایسا کروں گا،میرے شوہر کی بہن نے بھی یہی اصرار کیا، اور یہ کہا میں اس کی ذمہ داری لیتی ہوں اور اس کا علاج کراؤ ں گی، ان کے اصرار پر میں ان کے ساتھ گھر جانے کے لیے تیار ہوگئی،لیکن اس دوران بھی یہی مسئلہ برقرار رہا،10 دسمبر 2023ء کو میں نے شوہر سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،کیوں کہ میرا مسئلہ ابھی تک برقرار ہے،وہ میرے اصرار پر مجھے میری والدہ کے گھر چھوڑ کر چلے گئے اور کہا تم سوچو میں تمہیں نہیں چھوڑ وں گا،آج مجھے اپنی والدہ کے گھر آئے ہوئے نو ماہ  ہوگئے ہیں اور میں آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،اب اس سے خلاصی کا شرعی طریقہ کیا ہے؟

وضاحت:

مجھے جب اپنے شوہر کی نامردگی کا پتہ چلا،اس وقت سے میں اس کے ساتھ رہنے پر راضی نہیں تھی، ایسی وقت ہی میں نے اپنے والد صاحب سے اس بارے میں بات کی تھی،میں کبھی بھی اس کے پاس اس حالت میں  رہنے ہر رضامند نہیں تھی۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر  واقعۃً  شوہر نامرد ہے اور  ازدواجی حقوق ادا کرنے سے بالکل قاصر ہے، تواولاً شوہر پر  ہی لازم تھا کہ جب اس کو معلوم تھا کہ میں نامرد ہوں،تو کسی لڑکی کے ساتھ شادی کرکے اس کی زندگی برباد نہ کرتا، اور اگر اسے اپنی نامردگی کا اندازہ نہیں  تھا اور شادی کرنے کے بعد وا ضح ہوگیا کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرنےپر قادر نہیں،جس پر چھ سال گذر جانے کے باوجودبھی قادر نہ ہوا تو اب اس کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ بیوی کی زندگی پر رحم کھائے اور اس کے مطالبہ پرباعزت  طریقے سے ایک  طلاق بائن دے کر اس کو فارغ کردے،اور بیوی کا حق مہر اور نفقہ عدت بھی ا‬ُسے اداکرے،اور اگر وہ طلاق نہیں دیتا تو کم ازکم خلع  دے کر بیوی کو آزاد کرے،لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی کو حق مہر سے محروم کرکے خلع پر مجبور کرنا بھی اس کی حق تلفی ہے،تا ہم خلع دینے سے عورت اس کے نکاح سے آزاد ہوجائے گی، اگر طلاق نہ دے  اور خلع پر رضامند بھی نہ ہوتو شوہر کے والدین اور خاندان کے بڑے حضرات کو چاہیے کہ اپنے بیٹے کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے تا کہ بیوی کسی دوسری جگہ نکاح کرکے خوشی کے ساتھ زندگی گزارے، اگر شوہر طلاق نہ دے اور والدین اور خاندان والےاس عمل یعنی طلاق نہ دینے پر شوہر کے ساتھ دیں تو وہ بھی زیادتی میں  اس  کے معاون شمار ہوں گے،جس طرح ظلم پر گناہ ملتا ہے،اس طرح ظلم پر معاون و مددگار بننا بھی گناہ ہے۔

بہر حال اگر لڑکا  بیوی کو اس کا حق نہیں دیتا اور نہ چھوڑنے پر تیار  ہوتا ہو، اور بیوی نے اس  نامردکے ساتھ اس حالت میں  رہنے پر رضامندی کا اظہار نہیں کیا ہے،تو سائلہ کو تنسیخ نکاح کا حق حاصل ہے کہ سائلہ   کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعوی دائر کرے کہ اس کا شوہر ہم بستری کے قابل نہیں ہے اوراب تک ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکاہے،  لڑکی کے دعوے  کے بعد جج اس کے شوہر کوطلب کرکے تحقیق کرے گا، اگرثابت ہوجائے کہ اب تک ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکا ہے تو جج شوہرکو علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دے گا  کہ مزید علاج وغیرہ کرکے بیوی کا حق ادا کرے،  ایک سال بعد بھی اگروہ ہم بستری پرقادر نہ ہو تو جج مذکورہ لڑکی سے ایک مرتبہ پھرپوچھے گا کہ وہ اسی شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یاعلیحدگی چاہتی ہے؟ اگرلڑکی جدائی کا مطالبہ کرے توجج دونوں کے درمیان تفریق کردے گا،  اس کے بعد لڑکی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ 

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

’’عن عبد الله، قال: "يؤجل العنين سنة، فإن وصل إليها وإلا فرق بينهما، ولها الصداق.‘‘

(ج: 9، ص: 343، ط: مكتبة ابن تيمية)

المحیط البرہانی میں ہے:

’’إذا ‌وجدت المرأة زوجها عنيناً، فلها الخيار إن شاءت أقامت معه كذلك، وإن شاءت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة، فإن خاصمته فالقاضي يؤجله سنة وتعتبر السنة عند أكثر المشايخ بالأيام، وهو رواية ابن سماعة عن محمد رحمه الله، وعليه الفتوى، ولا يكون التأجيل إلا عند سلطان يجوز قضاؤه. وابتداء التأجيل من وقت المخاصمة.‘‘

(كتاب النكاح، الفصل الثالث و العشرون في العنين و المجبوب و الخصي، ج: 3، ص: 173، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

’’(إذا وجدت) المرأة (زوجها مجبوبا) ، أو مقطوع الذكر فقط أو صغيره جدا كالزر، ولو قصيرا لا يمكنه إدخاله داخل الفرج فليس لها الفرقة بحر، وفيه نظر.وفيه: المجبوب كالعنين إلا في مسألتين؛ التأجيل، ومجيء الولد (فرق) الحاكم بطلبها لو حرة بالغة غير رتقاء وقرناء وغير عالمة بحاله قبل النكاح وغير راضية به بعده (بينهما في الحال) ولو المجبوب صغيرا لعدم فائدة التأجيل.

(قوله: وغير عالمة بحاله إلخ) أما لو كانت عالمة فلا خيار لها على المذهب كما يأتي، وكذا لو رضيت به بعد النكاح.‘‘

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العنين، 494/3۔495، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں