بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

انجینئرکا پی ای سی سرٹیفکیٹ کے عوض معاہدہ


سوال

میرے پاس پاکستان انجینئرنگ کونسل (PEC) کا سرٹیفکیٹ ہے، کنسٹرکشن کمپنیاں ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے PEC کے مطابق کل وقتیانجینئر رکھنے کی پابند ہیں، لیکن وہ ماہانہ تنخواہ دینے کے بجائے سالانہ معاہدہ کرتی ہیں، جس میں انجینئر کو کم رقم دے کر کاغذات میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ کل وقتی  ملازم ہے، حالاں کہ حقیقت میں وہ کمپنی کے لیے نہ ہیکام کرتاہےاورنہ ہی کل وقتی ملازم ہے، کمپنی میرا PEC سرٹیفکیٹ استعمال کر کے ٹھیکہ حاصل کرے گی، جب کہ میں کل وقتی یونیورسٹی میں ٹیچر ہوں،میں اس کو اس لیے جائز سمجھتا ہوں ، کیوں کہ اگر کمپنی مجھ سے کوئی کام لینا چاہے تو میں نے منع تو نہیں کیا ،  وہ تو کمپنی خود ہی مجھے سال کی رقم دے کر مجھ سے کام نہیں لیتی۔ کیا میرے لیے ایسی کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ شرعی طور پر جائز ہوگا؟

جواب

یہ معاہدہ شریعت کے رو سے جائز نہیں ہے اور کئی ناجائز امور پر مشتمل ہے، جن کی تفصیل ذیل میں ہے۔

1۔کمپنی کا انجینئرکے ساتھ سالانہ معاہدہ صرف سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے کیاجاتاہے، انجینئر کی خدمات کے حصول کے  لیےنہیں  اورانجینئر کونسل کا سرٹیفکیٹ کوئی  مال نہیں ہے جس کو کرایہ پر دیا جاسکے یا فروخت کیا جاسکے۔

2۔ اس میں دھوکادہی اور جھوٹ پایا جاتا ہے جوکہ ناجائز اور حرام ہے، اس لیے کمپنی اس لائسنس کو دکھا کر یہ ظاہر کرے گی کہ مذکوہ انجینئر اس کے پاس کل وقتی  ملازم ہے اور یہ جھوٹ  اور  دھوکادینا ہے۔

3۔ حکومت کی طرف سے قانوناً اس کی پابندی ہے، اور حکومت کی ایسی جائز پابندیاں جو مفادِ عامہ کی مصلحت میں ہوں ان کی پاس داری شرعاً بھی لازم ہے۔

4۔ مذکورہ انجینئر کو اس کی صلاحیت اور تعلیم کی بنیاد پر انجینئر کی سند دی گئی ہے، اگر اس سند کو دکھا کر کوئی غیر تربیت یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شخص آرڈر حاصل کرلے تو اس میں اس کے کام کو صحیح طرح نہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کی جانوں کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

5۔جب آپ کل وقتی یونیورسٹی میں ملازم ہیں تو یہ وقت یونیورسٹی میں دینا لازم ہے،اگر کمپنی کام لے بھی تو ایک وقت میں دو جگہ ملازمت کرنے میں لازما کسی ایک کی حق تلفی ہوگی۔

جہاں تک سائل کا  سوال ہے کہ سائل نے کام دینے سے منع نہیں کیا، لیکن کمپنی خود ہی کام نہیں لیتی، چوں کہ عمومی رواج یہی ہے کہ کمپنی کام نہیں لیتی اور سائل کے ذمے کوئی بھی کام متعین نہیں ہے؛ لہٰذا عرف کے رو سے سائل کے ذمےکوئی کام نہیں ہے،بلکہ یہ سرٹیفکیٹ کے حصول ہی کا معاہدہ ہے، لہذا سائل کےلیے PECسرٹیفکیٹ کے عوض  کسی بھی قسم کابدل بطور قیمت،کرایہ یا اجرت حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز ‌الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة...

مطلب: لا يجوز ‌الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لا يجوز ‌الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها."

(كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية، ج:4، ص:518، ط:سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن ‌بيع ‌الحقوق المجردة لا يجوز كالتسييل وحق المرور."

(كتاب البيوع، باب بيع الفاسد، ج:6، ص:340، ط:دار الفكر)

فتوی شامی میں ہے:

"وشرطها: كون الأجرة والمنفعة معلومتين لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة."

(كتاب الاِجاره، ج:6، ص:5، ط: سعید)

نتائج الأفكار في كشف الرموز و الأسرار میں ہے:

"(ولا تصح الإجارة حتى تكون المنافع معلومة والأجرة معلومة لما روينا) من قوله ( (من استأجر أجيراً فليعلمه أجره))فإنه كما يدل بعبارته على كون معلومية الأجرة شرطاً يدل بدلالته على اشتراط معلومية المنافع، لأن المعقود عليه في الإجارة هو المنافع وهو الأصل، والمعقود به وهو الأجرة كالتبع كالثمن في البيع، فإذا كان معلومية التبع شرطاً كان معلومية الأصل أؤلى بذلك."

(كتاب الاِجاره، ج:9، ص:61، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"إذا كان فعل الإمام مبنيًّا على المصلحة فيما يتعلق بالأمور العامَّة لم ينفذ أمرهشرعًا إلا إذا وافقه، فإن خالفه لم ينفذ، ولهذا قال الإمام أبو يوسف رحمه الله في كتاب الخراج من باب إحياء الموات: وليس للإمام أن يخرج شيئًا من يد أحد إلابحق ثابت معروف."

(النوع الأول، النوع الثاني ،القاعدة الخامسة ،ص:106ط ،دارالكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608101274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں