بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

انشورنس،سودی لون سے خریدی ہوئی پراپرٹی کا حکم،بیع صرف میں قبضہ کا حکم


سوال

(1)یہاں جرمنی میں ایک انشورنس ہے جس سے(liability insurance )کہتے ہیں جو جرمنی میں لازمی نہیں ہے لیکن لینا ضروری ہے۔ اسے لینا ضروری ہے کیونکہ ، زیادہ تر پراپرٹی رینٹل ایگریمنٹ میں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ غیر ارادی طور پر دیواروں، فرشوں، مالک مکان  کے فرنیچر وغیرہ کو نقصان پہنچانے کے معاملات میں عمل میں آتا ہے .مثال کے طور پر آپ کا بچہ کسی اور کے گھر میں کسی چیز کو نقصان پہنچاتا ہے تو آپ کو ان تمام اخراجات کو خود پورا کرنا پڑتا ہے اور آپ آسانی سے قرض میں جاسکتے ہیں اور دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ یہ انشورنس آپ کو روز مرہ زندگی میں ہونے والے حادثات سے بچاتا ہے، جیسے کسی کو غیر ارادی طور پر نقصان پہنچانا کیونکہ کار حادثے میں آپ کو ان کے علاج کے لیے ادائیگی کرنا پڑے گی ان کی تنخواہ اس وقت تک ادا کریں  گےجب تک کہ وہ دوبارہ کام کرنے کے قابل نہ ہوں ۔ یہ انشورنس صرف اس وقت ادا کی جاتی ہے جب آپ کچھ غیر ارادی طور پر کرتے ہیں نہ کہ نیت سے۔ اس لیے میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا میرے لیے یہ حلال ہے کہ میں اپنے آپ کو ان غیر ارادی نقصانات سے بچانے کے لیے ایسی انشورنس کرواؤں تا کہ مجھے اور میرےخاندان کو مالی بوجھ اٹھانانہ پڑے کیونکہ یہاں جرمنی میں ہر چیز مہنگی ہے اور آپ اپنے یا اپنے چھوٹے بچے کے غیر ارادی نقصانات کی وجہ سے آسانی سے قرض میں جاسکتے ہیں۔

(2)قسط پر جائیداد کی خریداری:

میں 8 سال کے دوران کسی فردیا کمپنی سے ایک مقررہ قسط کے منصوبے پر پراپرٹی خریدنے پر غور کر رہا ہوں۔ تاہم، بیچنے والے نےاپنی جائیداد کوبینک کے پاس رہن رکھواکر اس کے ذریعے بینک سےسودی لون لیکراس پراپرٹی کوخریداہے۔ میراخریداری کا معاہدہ براہ راست بیچنے والے کے ساتھ ہو گا، اور کوئی بینک میرے لین دین میں شامل نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ بیچنے والا ان قسطوں کو استعمال کرے گا جو میں فراہم کرتا ہوں اپنے سود پر مبنی قرض کی ادائیگی کے لیے۔ ان حالات کے پیش نظر میں درج ذیل امور کی وضاحت چاہتا ہوں: شرعی تعمیل: کیا میرے لیے ان شرائط کے تحت جائیداد خرید نا جائز (حلال) ہے۔

حالانکہ بیچنے والا میری ادائیگیوں کو اپنے سود پر مبنی رہن کے تصفیے کے لیے استعمال کر رہا ہے؟ دیر سے ادائیگی: اس صورت میں کہ میں اپنی قسط کی ادائیگی میں دیر کر رہا ہوں، بیچنے والے کے کیا حقوق ہیں؟ کیا انہیں جرمانے یا جرمانے عائد کرنے کی اجازت ہے، یا کوئی متبادل طریقہ ہے جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو ؟

(3)سونے کی سرمایہ کاری کا منصوبہ:

میں یورپ میں مقیم ہوں، اور یہاں چند گولڈ سمتھ کمپنیاں موجود ہیں جو " گولڈ انویسٹمنٹ پلانز " پیش کرتی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت آپ ہر ماہ اپنی رقم کےذریعے سونے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جس سے آپ کے لیے سونے کی سلاخیں یا سکے خریدے جاتے ہیں اور انہیں دنیا کے مختلف حصوں میں موجود محفوظ والٹس میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ ماہانہ کم از کم سرمایہ کاری کی حد 25 یورو ہے، اور آپ کی مرضی کے مطابق آپ اس حد سے زیادہ یا کم سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، لیکن کم از کم رقم 25 یو ر وہی رہے گی۔ تاہم، اکاؤنٹ کھولنے کے وقت آپ کو ایک بار کی 1000 یورو کی سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔اس منصوبے کے تحت تمام سرمایہ کاری کی رقم جسمانی سونے کی سلاخوں یا سکوں میں تبدیل کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ کمپنیاں خود سونے کی فروخت کرتی ہیں، اس لیے آپ کو ان کی اپنی کمپنی کا سونا حاصل ہوتا ہے۔ جب آپ کا سونا 50 گرام تک پہنچ جائے، تو آپ فیس کی ادائیگی کے بعد اسے اپنے گھر منگوا سکتے ہیں یا والٹ میں محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کبھی بھی اپنا سونا فروخت کرنا چاہیں، تو آپ اسے انہیں واپس بیچ سکتے ہیں یا ڈیلیوری کے بعد کہیں اور فروخت کر سکتے ہیں، لیکن خریداری ہمیشہ انہی کمپنیوں سے ہی کرنی ہو گی۔ یہ سرمایہ کاری کا منصوبہ 2 سے 10 سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے اور ایک آن لائن پورٹل کے ذریعے آپ اپنی سرمایہ کاری کو ٹریک بھی کر سکتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت دی جانے والی خدمات کے لیے یہ کمپنیاں خریدے گئے سونے کی کل قیمت کا 0.4% چارج کرتی ہیں سالانہ ۔ جسے وہ گولڈ اسٹوریج فیس کہتے ہیں۔ ۔ میری تشویش یہ ہے کہ آیا یہ سرمایہ کاری کا منصوبہ اسلامی نقطہ نظر سے میرے لیے حلال ہے ؟ اگر نہیں، تو مجھے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے اور ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے وقت کن چیزوں سے پر ہیز کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ آج کل مختلف ممالک  میں بیمہ و انشورنس کے نام سے مختلف ادارےکام کرتے ہیں جو لوگوں پر ماہانہ یا سالانہ اعتبار سے مخصوص رقم لازم کرتے ہیں ،تاکہ جب  ان کا کوئی نقصان ہوجائے تو اس کی ایک حد تک تلافی کی جائے ،اس طرح کے ادارے دو بنیادی مفاسد  "سوداور جوّا"پر مشتمل ہونےکی وجہ سے ان میں شرکت کرنا  جائز نہیں ہے۔(1)لہٰذا صورت  مسئولہ میں سائل پر حکومت کی طرف سے انشورنس کروانا لازمی  قرار نہیں دیا گیا ہے ،اس لیے اس طرح کی کمپنیوں میں انشورنس کروانا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر کوئی شخص ایسے ماحول میں رہتاہو کہ بغیر بیمہ کرائےجان و مال کی حفاظت ہی نہ ہوسکتی ہو  اور بیمہ کرنا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانے کی اجازت ہوگی مگر اصل رقم سے زیادہ لینے کی گنجائش نہ ہوگی۔

(2) واضح رہے کہ بینک سے سودی قرض لینا،دینا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، البتہ بینک سے سود پر قرض لے کر خریدی گئی  جائیداد  شرعًا سود نہیں ہےاس کا خریدنا جائز ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے لیے مذکورہ پراپرٹی کا خریدنا جائز ہے۔نیز سائل کا یہ کہنا کہ بائع اس رقم کوجو وہ ادا کرے گا اپنے سود پر مبنی قرض کی ادائیگی کےلیے استعمال کرےگا،اس سے بیع پر کچھ فرق نہیں پڑےگا؛کیونکہ پراپرٹی بیچنےوالاپیسوں پر قبضہ کرنے کے بعد اس کا مالک بن جاتاہے،اور مالک کو اختیارہےکہ وہ جس طرح چاہے اپنے ملک میں تصرف کرے۔ البتہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جرمانہ عائد کرنا سودہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔  

(3) واضح رہے موجودہ زمانہ میں نوٹ کو قانونی طور پر کرنسی تسلیم کیا گیا ہے ، ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہےاور یہ فی نفسہ مال اور ثمن ہے،جب اس کے ذریعے سونا یاچاندی خریدے گا تو معاملہ کا نقد اور ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے،ادھار معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا   ۔اور ایسی بیع کرنا بھی جائز نہیں ہےجس میں ایسی شرائط پائی جاتی ہو جو عقد کے تقاضاکے خلاف ہوں ۔لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل کامذکورہ کمپنیوں کےمنصوبہ" گولڈانویسٹمنٹ پلانز" کے تحت سرمایہ کاری کرنا ان مفاسد کی بنیاد پر جائز نہیں ہوگا ۔سائل یورو کے ذریعے سونا خریدرہا ہےتو اس کے لیے سونے پر قبضہ کرنا مجلس میں شرط ہے جو کہ نہیں پایا جارہا ہےاس لیے یہ بیع جائز نہیں ہوگی ۔اور سائل پر کمپنی یہ بھی لازم کررہی ہے کہ اکاؤنٹ کھولنےپر ایک ہزار یورو کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی،اسی طرح یہ کمپنیاں یہ بھی لازم کررہی کہ ہمیشہ خریداری انہی کمپنیوں سے کرنی ہوگی، یہ دوایسے شرائط ہیں جو مقتضائے عقد کے خلاف ہے ،جس کی وجہ سے بیع فاسد ہوجاتی ہے اور ایسا عقد کرنا جائز نہیں ہوگا۔مشتری کا  مذکورہ کمپنیوں کا منصوبہ کے تحت"گولڈاسٹوریج فیس "کے نام پر خدمات کےبدلے0.4 فیصدرقم لینااوردیناجائز نہیں ہے،ہاں اگر خاص رقم مقرر کرےمثلاً 5ہزار یا 10 ہزار، پھر مشتری سونے پر قبضہ کرے اوراس کے بعد حفاظت کے لیےسونامذکورہ کمپنی کے پاس رکھے تو گولڈ اسٹوریج کو فیس دینااور لینا کمپنی کےلیے جائز ہوگا۔

سائل کو چاہیے کہ وہ ایسے کمپنیوں کے منصوبوں کے تحت سرمایہ کاری کرے جس میں رقم کی ادائیگی کے ساتھ ہی سونا پر فوراً قبضہ دیا جاتا ہو،اور ایسے شرائط بھی نہ پائی جاتی ہو جو عقد کے تقاضہ کے خلاف ہو ۔  

(1) قرآن کریم میں ہے:

"أَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (البقرة: 275)"

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدة: 90)"

 درمختارمیں ہے:

"وفي الاشباه ‌كل‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام."

(کتاب البیوع ،باب الربا،ص430)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(کتاب البیوع  والأقضیة، ج 4،ص 483،ط: مکتبة رشدریاض)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج6،ص403،ط سعید)

"الضرورات تبیح المحظورات."

(الاشباہ والنظائر۔القاعدۃ الخامسہ،ص73،رشیدیۃ)

درر الحکام میں ہے:

"ما حرم فعله حرم طلبه."

(المادۃ،ج1،ص44،ط دارالجیل)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: موجودہ زمانہ میں بیمہ کرانا اپنا یا دوکان اور کار وغیرہ کاکیسا ہے؟

جواب:بیمہ سود بھی ہے اور جوّابھی ،یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بھی ممنوع ہے،لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کرائے جان و مال کی حفاظت ہی نہ ہوسکتی ہو،یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے۔

(کتاب البیوع،باب الربا ،فصل بیمہ زندگی،ج16،ص387-388،ط ادارۃ الفاروق) 

(2) فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام".

(باب الباب المتفرقات،‌‌مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه،ج5،ص235،ط سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الخانية: ‌امرأة ‌زوجها ‌في ‌أرض ‌الجور إذا أكلت من طعامه، ولم يكن عينه غصبا أو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من ذلك والإثم على الزوج".

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج6،ص386،ط سعید)

دررالحکام میں ہے:

"كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه ‌المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. "

( دررالحکام ،الفصل الاول فی بیان بعض القواعد المتعلقہ باحکام الاملاک،ج3،ص201،ط دارالجیل)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

سوال:احقر کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے اور ہم دوبھائی اور ایک بہن ہیں اور احقر چھوٹا ہے،جائیدادِ موروثہ پر بھائی صاحب ہی کی نگرانی ہے اور ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی،احقر مدرسہ اسلامیہ فیض العلوم حیدر آباد میں ملازم ہے۔گو بھائی صاحبِ  زراعت پیشہ ہیں،لیکن حال ہی میں انہوں نے احقر کے کپڑے بنائے ہیں، ان سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ سودی قرض لے کر کپڑے بنائے ہیں،احقر کا مقصد تھا کہ اپنا حقِ جائیداد،یعنی آمدنی سے اپنا حصہ حاصل کروں،لیکن انہوں نے بغیر حساب آمدنی بتلائے کپڑے بنوادیے اور نقد ۷۵ روپے دیے،پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ سودی قرض لاکر دیے ہیں،اب احقر کو اشکال ہورہا ہے کہ ان کپڑوں اور روپیوں کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:سود لینا دینا گناہ کبیرہ ہے لیکن جو روپیہ آپ کو نقد قرض لے کر دیا ہے وہ سود نہیں ہے ،اسی طرح قرض لے کر جو کپڑا بنا کر دیا ہے وہ بھی سود نہیں ہے آپ  کے لیے جائز ہے۔"

(باب الربوا،ج23ص554،ط مکتبہ فاروقیہ)

الدر المختار میں ہے:

"(بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل)  أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء".

(کتاب الصرف، ج:5، ص:257، 258، ط:سعید)

محیط برھانی میں ہے:

"ولو شرط النساء في أحد البدلين في بيع الدراهم بالدنانير، وأشباه ذلك ثم إن المشروط له النسيئة نقد البعض دون البعض فسد البيع في الكل في قول أبي حنيفة."

(کتاب الصرف،الفصل الاول ،ج7،ص171،ط دارالکتب العلمیہ)

تبیین الحقائق میں ہے:

"والأصل فيه أن ‌كل ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه العقد وهو غير ملائم له ولم يرد الشرع بجوازه ولم يجز التعامل فيه وفيه منفعة لأهل الاستحقاق مفسد لما روينا."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج4،ص57،ط المطبعۃ الکبری)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية."

(کتاب الاجارۃ،الاباب الاول،ج4،ص409،ط المطبعۃ الکبری مصر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608102305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں