بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی فیملی کے پڑوس میں رہنے کا حکم


سوال

پڑوس میں اگر عیسائی فیملی رہتی ہو،  اس جگہ رہنا کیسا ہے؟

جواب

اسلام میں  پڑوسیوں کے حقوق، ان کے اکرام ، ان کی رعایت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی جو تاکید قرآن وحدیث میں مذکور ہے ان میں غیرمسلم بھی داخل ہے، (البتہ وہ غیر مسلم داخل نہیں ہے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہو لیکن اندر سے اسلام کی بیخ کنی کرتا ہو، جیسے قادیانی وغیرہ) ایک روایت میں ہے:

شعب الإيمان  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الجيران ثلاثة: فمنهم من له ثلاثة حقوق، ومنهم من له حقان، ومنهم من له حق، فأما الذي له ثلاثة حقوق فالجار المسلم القريب له حق الجار ، وحق الإسلام، وحق القرابة، وأما الذي له حقان فالجار المسلم له حق الجوار، وحق الإسلام، وأما الذي له حق واحد فالجار الكافر له حق الجوار. "

(باب في إكرام الجار، ج: 7،ص؛ 83، رقم الحدیث: 9559، ط: دار الكتب العلمية)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔

تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے۔

جامع ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کا واقعہ مذکور ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی، انہوں نے گھر والوں سے کہا: کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ: جبرئیل مجھے پڑوسی کے حقوق کی مسلسل تاکید کرتے رہے کہ مجھے خیال ہونے لگاکہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں داخل نہیں ہوگا وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں اور شرور سے محفوظ نہ ہو۔ (مسلم)

احادیثِ مبارکہ میں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے، اور ان میں کہیں مسلمان کی صراحت نہیں بلکہ صرف پڑوسی کا لفظ ہے،اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں  کے پڑوس میں رہنے میں کوئی قباحت نہیں، نبی کریم ﷺ کا کافر پڑوسیوں کے ساتھ  بھی حسنِ سلوک کا معمول تھا ؛ اس لیے اگر سائل کے پڑوس میں عیسائی رہتے ہوں ،  شریعت ان کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دیتی ہے ،ان کے  دکھ سکھ میں شریک ہونا  درست ہے اور انہیں کسی بھی قسم کی ان کو  تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا   شرعاً لازم ہے۔البتہ ان کے مذہبی اعمال میں شریک ہونا، ان سے محبت اور عقیدت کا تعلق رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يدخل الجنة من لا يأمن جاره بوائقه."

‌‌(‌‌كتاب الإيمان، باب بيان تحريم إيذاء ‌الجار، ج: 1، ص: 49، رقم الحدیث: 46، ط: دار الطباعة العامرة)

سننِ ترمذی میں ہے:

"عن مجاهد، أن عبد الله بن عمرو ذبحت له شاة في أهله، فلما جاء قال: ‌أهديتم ‌لجارنا ‌اليهودي؟ ‌أهديتم ‌لجارنا ‌اليهودي؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه."

(أبواب البر والصلة، باب ما جاء في حق الجوار، ج: 4، ص: 333، رقم الحدیث: 1943, ط: مصطفى البابي الحلبي)

تفسیرِ ابن منذر میں ہے: 

"عن ابن عباس، في قوله: " {‌لا ‌يتخذ ‌المؤمنون ‌الكافرين ‌أولياء ‌من ‌دون ‌المؤمنين} ، قال: نهى الله سبحانه المؤمنين أن يلاطفوا الكفار، ويتخذون وليجة من دون المؤمنين، إلا أن يكون الكفار عليهم ظاهرين، فيظهروا لهم اللطف، ويخالفونهم في الدين، وذلك قوله عز وجل: {إلا أن تتقوا منهم تقاة}."

(‌‌قوله جل وعز: {لا يتخذ المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين، ج: 1، ص: 164، رقم الحدیث: 348، ط: دار المآثر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں