خاوند اور بیوی دونوں مذہبی اعتبار سے عیسائی تھے،ان کے چھوٹے بچے ہیں،خاوند اپنی مرضی سے اسلام قبول کرچکا ہےجب کہ اس کی بیوی اب بھی عیسائی مذہب پر قائم ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ خاوند کے اسلام قبول کرنے سے ان کا نکاح ختم ہوگیا ہےیا دونوں کا نکاح برقرار ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر عورت نام کی عیسائی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو اور وہ اصلاً ہی یہودیہ یا نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو تو اس صورت میں خاوند کے اسلام قبول کرنے کے باوجود دونوں کا نکاح برقرار ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولو) (أسلم زوج الكتابية) ولو مآلا كما مر (فهي له)
(وقوله ولو أسلم زوج الكتابية) هذا محترز قوله فيما مر أو امرأة الكتابي (قوله كما مر) أي في قوله كما لو كانت في الابتداء كذلك، وأشار إلى أن الذي صرح به فيما مر يمكن انفهامه من هنا بأن يراد بالكتابية الكتابية حالا أو مآلا.
(قوله فهي له) لأنه يجوز له التزوج بها ابتداء، فالبقاء أولى لأنه أسهل نهر."
(کتاب النکاح،باب نکاح الکافر، ج:3، ص:192، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603101307
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن