حدثنا محمد بن عمرو بن عباد بن جبلة بن أبي رواد. حدثنا حرمي بن عمارة. حدثنا شداد، أبو طلحة الراسبي عن غيلان بن جرير، عن أبي بردة، عن أبيه،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال "يجيء الناس يوم القيامة، ناس من المسلمين، بذنوب أمثال الجبال. فيغفرها الله لهم. ويضعها على اليهود والنصارى" فيما أحسب أنا. قال أبو روح: لا أدري ممن الشك. قال أبو بردة: فحدثت به عمر بن عبد العزيز فقال: أبوك حدثك هذا عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قلت نعم..(صحیح مسلم)برائے مہربانی، مندرجہ بالا حديث کی (پس منظر کے ساتھ) وضاحت فرما دیجئے۔ غیر مسلم (خاص طور پر عیسائی ممالک میں انکے عیسائی داعی) اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ جیسے اسلام ایک نا انصافی پر مبنی مذہب ہے۔ اس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم بہت سے مسلمان(خاص طور پر نومسلم) شکوک و شبہات میں مبتلا ہو تے ہیں۔
واضح رہے کہ قیامت سزا وجزا(یوم الدين) کا دن ہے، اس دن ہر ایک کو اس کے مکمل اعمال کا بدلہ دیا جائے گا’’جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ‘‘ اور ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے گا’’الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لا ظُلْمَ الْيَوْمَ‘‘حدیث میں ہے کہ دنیا میں کسی سینگ والےبکرےنے بے سینگ والے بکرےکو سینگ سے مارا ہوگا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا، یہ معاملہ حقوق العباد کو پامال کرنے والے کے ساتھ کیا جائے گا،لیکن اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کے بارے میں صواب دیدی حکم جاری فرمائیں گے،چناچہ بہت سوں کو اللہ اپنے حقوق معاف کردیں گے،جب کہ کچھ ایسے بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دیں گے، اور دنیا میں بھی ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں معاف کرنے اور وصول کرنے دونوں حق محفوظ رکھتا ہے، اللہ اپنی مرضی سے بہت ساری مسلمانوں کو اپنے فضل سے بغیر حساب وکتاب سے جنت میں داخل کریں گے اور بہت سارے مسلمانوں کے گناہ معاف فرمادیں گے،لیکن کافر کے گناہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کےگناہ معاف کردئیے جائیں،اللہ نے ہر ایک انسان کے لیے ایک جگہ جنت اور ایک جگہ جہنم میں بنایا ہے،مسلمان اپنے ایمان اور نیک اعمال کی وجہ سے جنت میں جائیں گےاور کفار اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے،مسلمان کی جگہ جو جہنم میں ہے،اللہ اس کو دیکھا کر اس کو جنت میں داخل کریں گے اور وہ جگہ کافر کودیں گے،کیوں کہ کافر اس بات کا مستحق ہی نہیں ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں اس وجہ سے اس کی جنت کی جگہ مسلمان کو دی جائے گی۔
سوال میں جس حدیث پر عیسائی مبلغ نے اسلام پر اشکال کیا ہے،پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث پر زیادتی کا اشکال کرنا اس وقت صحیح ہوتا جب یہ بات صرف عیسائی اور یہود کے بارے میں آئی ہوئی ہو ،اور ایسا قطعاً نہیں ہے،جب کہ مسلم شریف ہی کی دوسری حدیث میں یہ بات مسلمان کے بارے میں بھی آئی ہے،’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم مفلس کس کو خیال کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ہم مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس در ہم اور سامان نہ ہو آپ ﷺنے فرمایا میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ زکوۃ لے کر آئے گا، مگر اس نے کسی کو گالی دی ہو گی اور دوسرے پر تہمت دھری ہوگی اور کسی کا مال لیا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کی مار پٹائی کی ہوگی، تو اس کی نیکیاں اس مظلوم کو دے دی جائے گی اور کچھ دوسرے کو پھر اگر اس کے ذمہ ادائیگی حقوق سے پہلے نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کے گناہوں کو اس ظالم پر ڈال دیا جائے گا، پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا‘‘ سو اس سے واضح ہے کہ یہ عمل صرف عیسائی اور یہود کے ساتھ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوگا، لہذا کافروں کے ساتھ مختص ہونے کی وجہ سے زیادتی کا اشکال بھی درست نہیں،
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں ہے ’’وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ‘‘ کہ کافر لوگ خود مسلمانوں سےکہتے تھے کہ تم ہمارے کفر والے راستے پر چل لو ہم تمہارے گناہوں کو اپنے سر لے لیں گے،جب کافر لوگ خود مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہماری اتباع کرو ہم آپ کی گناہوں کو اپنے سر لے لیں گےاٹھائیں گے،تو اس حدیث میں تو ان کی دیرینہ تمنٰی پوری ہورہی ہے،پھر اشکال کیسا؟ممکن ہے کہ ان کی خواہش کی تکمیل میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے گناہ ان کے سر ڈالیں گے۔
عیسائی اور یہودیوں نے مسلمانوں سے اس دنیا میں جینے کے تمام حقوق سلب کرلیے،ان پر قسم قسم کی پابندیاں اور ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہے،ان کےمعاشی اور ملکی تمام حقوق اپنے ہاتھ میں لیے ہے،قیامت کےدن جب مسلمان اللہ سے اپنے حقوق کا ان سے مطالبہ کریں گے،تو کفار کے نیک اعمال اپنے کفر کی وجہ سے غارت ہوچکے ہوں گے،یہی ایک صورت باقی ہوگی کہ مسلمانوں کے گناہ ان پر ڈال دئیے جائیں۔
عیسائی اور یہودی مسلمانوں کے اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اعمال یعنی کفر اور بد اعمالی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے،لیکن حدیث میں جو یہ بات آئی ہے کہ عیسائی اور یہودی پر مسلمانوں کے گناہ ڈالے جائیں گے،اس کا مطلب وہ نہیں ہے،جو عیسائی مبلغ نے لیا ہے اور عوام کو بتلایا ہے،بلکہ یہ مراد ہے کہ یہود و نصاریٰ کی ایجادات وغیرہ سے گمراہ ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے،مگر ان یہود ونصاریٰ کو ڈبل عذاب دیا جائے گا،کیوں کہ یہ معاشرے میں اشاعت معاصی وفواحش میں لگے رہے۔
مسلمانوں کے ان گناہوں کو ان پر ڈال دیا جائے گا، جو ان کفار کی ایجادات کے سبب ان سے سرزد ہوئے ہوں گے یعنی اللہ اپنے فضل سے مسلمانوں کے گناہ تو معاف کردیں گے اور یہودی اور عیسائی پر گناہ کا ڈالنا یہ مسلمانوں کے گناہ نہیں بلکہ خود یہود اور نصار کے اپنے کیے ہوئے گناہ تسبب ہوں گے۔
مسلم شریف میں ہے:
"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فينا من لا درهم له، ولا متاع فقال: إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار."
(كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم، ج: 8، ص: 18، ط: دار الطباعة العامرة)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما منكم من أحد إلا له منزلان: منزل في الجنة، ومنزل في النار، فإذا مات فدخل النار، ورث أهل الجنة منزله، فذلك قوله تعالى: {أولئك هم الوارثون}."
(أول أبواب الزهد، باب صفة الجنة، ص: 916، ط: دار الصديق للنشر)
المستدرک علی الصحیحین میں ہے:
"عن أبي هريرة، في قوله عز وجل {أمم أمثالكم} [الأنعام: 38] قال:يحشر الخلق كلهم يوم القيامة البهائم، والدواب، والطير، وكل شيء فيبلغ من عدل الله أن يأخذ للجماء من القرناء، ثم يقول: كوني ترابا فذلك {يقول الكافر يا ليتني كنت ترابا} [النبأ: 40] جعفر الجذري هذا هو ابن برقان، قد احتج به مسلم وهو صحيح على شرطه ولم يخرجاه."
(كتاب التفسير، تفسير سورة الأنعام، 345/2، ط: دار الكتب العلمية)
تفسیر روح المعانی میں ہے:
"وقال الذين كفروا للذين آمنوا بيان لحملهم المؤمنين على الكفر بالاستمالة بعد بيان حملهم إياهم عليه بالأذية والوعيد...إذا كان ذلك الاتباع خطيئة يؤاخذ عليها يوم القيامة كما تقولون أو ولنحمل ما عليكم من الخطايا إن كان بعث ومؤاخذة، وإنما أمروا أنفسهم بالحمل عاطفين له على الأمر بالاتباع للمبالغة في تعليق الحمل بالاتباع، فكأن أصل الكلام اتبعوا سبيلنا نحمل خطاياكم بجزم نحمل على أنه جواب الأمر."
(سورۃ العنکبوت، 345/10۔346، ط: دار الكتب العلمية)
شرح نووی علی مسلم میں ہے:
"وأما رواية يجيء يوم القيامة ناس من المسلمين بذنوب فمعناه أن الله تعالى يغفر تلك الذنوب للمسلمين ويسقطها عنهم ويضع على اليهود والنصارى مثلها بكفرهم وذنوبهم فيدخلهم النار بأعمالهم لا بذنوب المسلمين ولا بدمن هذا التأويل لقوله تعالى ولا تزر وازرة وزرأخرى وقوله ويضعها مجاز والمراد يضع عليهم مثلها بذنوبهم كما ذكرناه لكن لما أسقط سبحانه وتعالى عن المسلمين سيئاتهم وأبقى على الكفار سيئاتهم صاروا في معنى من حمل إثم الفريقين لكونهم حملوا الإثم الباقي وهو إثمهم ويحتمل أن يكون المراد آثاما كان للكفار سبب فيها بأن سنوها فتسقط عن المسلمين بعفو الله تعالى ويوضع على الكفار مثلها لكونهم سنوها ومن سن سنة سيئة كان عليه مثل وزر كل من يعمل بها."
(كتاب التوبة، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله، ج: 17، ص: 85، ط: دار إحياء التراث العربي)
البحر المحیط الثجاج میں ہے:
"ويحتمل أن يكون المراد أثاماً كانت الكفار سبباً فيها بأن سنوها، فلما غفرت سيئات المؤمنين بقيت سيئات الذي من تلك السنة السيئة باقية؛ لكون الكافر لا يغفر له، فيكون الوضع كناية عن إبقاء الذنب الذي لحق الكافر بما سنه من عمله السيئ، ووضعه عن المؤمن الذي فعله بما من الله به عليه من العفو والشفاعة، سواء كان ذلك قبل دخول النار، أو بعد دخولها، والخروج منها بالشفاعة، وهذا الثاني أقوى انتهى ما في الفتح )، وهو تحقيق مفيد، (1) والله تعالى أعلم."
(كتاب التوبة، باب قبول توبة القاتل وإن كثر قتله، ج: 42، ص: 447، ط: دار ابن الجوزي)
شرح اصول عقائد اھل السنة للالكائي ميں ہے:
"فما بال هذا اليهودي والنصراني يتحمل ذنوب المسلم، والأصل أن يتحمل كل إنسان ذنبه الذي اقترفه؟ وأقول: هذا حق، وليس هذا معنى الحديث، وإن كان هذا باد في ظاهره إلا أنه ليس مراداً على الحقيقة، والمراد هو أن الله عز وجل جعل لكل مخلوق مكانه في النار ومكانه في الجنة، فإذا مات الكافر اطلع على مكانه في الجنة ثم قيل له: هذا مكانك لو أنك آمنت، ثم يطلع على مكانه في النار ويخلد فيها أبد الآبدين، فيبدل الله عز وجل المسلم مكان الكافر في الجنة مع مكانه الأصلي، فهذا المسلم إنما دخل الجنة رغم ذنوبه لكن الله تعالى غفرها، وأدخل هذا اليهودي أو النصراني المكان الذي أُعد للمسلم في النار بسبب كفره ويهوديته ونصرانيته، لا بسبب ذنوب المسلم التي وضعت على هذا الكافر.فهو تبديل مكان في الجنة أو النار، فالمسلم يغفر الله تعالى له ويدخله الجنة، وأما الكافر فإن الله لا يغفر له ويدخله النار، وهذا معنى الحديث."
(حكم مرتكب الكبيرة، إشكال حول حديث جعل ذنوب ناس من هذه الأمة على اليهود والنصارى والجواب عليه، ج: 54، ص: 7)
الدلالات العقدية للآيات الكونية میں ہے:
"من عقيدة أهل السنة والجماعة أنهم لا يكفرون بكل ذنب، وأن من أرتكب كبيرة من الكبائر فهو تحت مشيئة الله، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له، قال تعالى:إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد افترى إثما عظيما."
(الفصل السادس، المبحث الثاني، الدلائل العقدية للآية، تاسعا، ص: 451، ط: دار ركائز للنشر والتوزيع)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101829
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن