بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ دومرتبہ پڑھنے کا حکم


سوال

ہمارے محلہ کی ایک مسجد میں  عشاء کی جماعت  / 8:30 پر ہے اور دوسری مسجد میں عشاء کی جماعت/  8:45 پر ہے ، میں  دونوں مسجد وں میں عشاء کی جماعت میں شامل ہو گیا تھا،سوال یہ ہے کہ کیا ایسا عمل جائز ہے ؟ میں نے یہ سوچا بھی کہ دوسری مسجد کی جماعت میرے  لیے نفل ہو گی۔

جواب

واضح رہے کہ فجر،عصر اور مغرب کی نماز جب ایک مرتبہ ادا کی جائے،تو دوبارہ جماعت میں نفل کی نیت سے شریک ہونا جائز نہیں،البتہ ظہر اور عشاء میں نفل کی نیت سے شامل ہو سکتے ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر لی تھی تو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی، البتہ  اگر آپ دوسری مسجد میں پہنچے اور وہاں نماز کا وقت تھا تو نماز نہ پڑھنے  کی تہمت سے بچنے کے  لیے آپ کا دوبارہ جماعت میں شامل ہونا درست تھا، لہذا  آپ نے دوسری  مسجد میں عشاء کی جو نماز  پڑھی ہے، وہ نفل شمار ہو گی ،اس لیے کہ فرض نماز ایک مرتبہ ادا ہو چکی تھی۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"قال (ولا يجوز لمن فاته ظهر أمسه أن يقتدي بمن يصلي ظهر يوم غير ذلك) وها هنا مسائل. إحداها ‌اقتداء ‌المتنفل ‌بالمفترض فهو جائز بالاتفاق لقوله صلى الله عليه وسلم «سيكون أمراء بعدي يؤخرون الصلاة عن مواقيتها فإذا فعلوا فصلوا أنتم في بيوتكم ثم صلوا معهم واجعلوا صلاتكم معهم سبحة» أي نافلة، ولأن المقتدي بنى صلاته على صلاة إمامه كما أن المنفرد يبني آخر صلاته على أول صلاته، وبناء النفل على تحريمة انعقدت للفرض يجوز وكذلك ‌اقتداء ‌المتنفل ‌بالمفترض".

(کتاب الصلاۃ،باب الأذان، أذان المرأة، ج:1، ص:136، ط:مطبعة السعادة - مصر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ويجوز ‌اقتداء ‌المتنفل ‌بالمفترض عند عامة العلماء".

(كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة، ج:1، ص:143، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

 البناية شرح الهداية میں ہے:

"‌وإن ‌كان ‌قد ‌صلى)  أي وإن كان الداخل مسجدا أذن فيه قد صلى فرضه (وكانت)  أي الصلاة التي صلاها (الظهر أو العشاء فلا بأس بأن يخرج لأنه أجاب داعي الله مرة) وهو المؤذن  (إلا إذا أخذ المؤذن في الإقامة) هذا استثناء من قوله فلا بأس بأن يخرج أراد أن المؤذن إذا شرع في الإقامة فإنه لا يخرج حينئذ  (لأنه يتهم بمخالفة الجماعة عيانا)  أي معاينة، وانتصابه على الحال من مخالفة.

 (ولو كانت العصر)  أي ولو كانت الصلاة التي صلاها وحده صلاة العصر  (أو المغرب أو الفجر) أي أو كانت المغرب أو كانت الفجر أي صلاة الفجر  (خرج) أي من المسجد  (وإن أخذ فيها)  أي إن أخذ المؤذن أي شرع في واحدة من هذه الصلوات (لكراهة التنفل بعدها)  أي بعد العصر والمغرب والفجر".

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب إدراك الفريضة، ج:2، ص:568، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں