بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اجنبی مولوی کے سامنے آنے کاحکم


سوال

کیا کسی بھی مولوی صاحب  کا دین  کی کسی بھی محنت کے لیے کسی مجلس میں اس طرح شریک ہونا کہ خود کرسی پر تشریف فرماہوں اور مستورات اُن کے سامنے بے پردہ بیٹھی ہوں ،اور مولوی صاحب اُن سے بات کریں ،اور مجلس میں اُن کے علاوہ اور کوئی مرد بھی نہ ہوں ،کیاشریعت میں اس کی گنجائش ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی عورت کااجنبی مرد  کے سامنے - چاہے وہ عالم ہو یاغیر عالم -  بے پردہ سامنے آنادرست نہیں،لہذا صورتِ مسئولہ   میں  مذکورہ خواتین  کا اجنبی مولوی صاحب کے سامنے  کسی بھی کام کے لیےبے پردہ سامنے آنا  یاان کے  ساتھ اٹھنا ،بیٹھنا یہ تمام امور شرعًا جائز نہیں ، بلکہ فسق ( گناہ ) میں داخل ہے۔

فتاوی شامی ہے:

"و الخانية وغيرهما وقيل: إن الاختتان ليس بضرورة، لأنه يمكن أن يتزوج امرأة أو يشتري أمة تختنه إن لم يمكنه أن يختن نفسه كما سيأتي. وذكر في الهداية الخافضة أيضا لأن الختان سنة للرجال من جملة الفطرة لا يمكن تركها وهي مكرمة في حق النساء أيضا كما في الكفاية، وكذا يجوز أن ينظر إلى موضع الاحتقان لأنه مداواة ويجوز الاحتقان للمرض، وكذا للهزال الفاحش على ما روي عن أبي يوسف لأنه أمارة المرض هداية، لأن آخره يكون الدق والسل، فلو احتقن لا لضرورة بل لمنفعة ظاهرة بأن يتقوى على الجماع لا يحل عندنا كما في الذخيرة (قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن " ينبغي " هنا للوجوب. (قوله سراج) ومثله في الهداية (قوله وكذا تنظر المرأة إلخ) وفي كتاب الخنثى من الأصل أن نظر المرأة من الرجل الأجنبي بمنزلة نظر الرجل إلى محارمه، لأن النظر إلى خلاف الجنس أغلظ هداية والمتون على الأول فعليه المعول (قوله حرم استحسانا إلخ) أقول: الذي في التتارخانية عن المضمرات فأما إذا علمت أنه يقع في قلبها شهوة أو شكت ومعنى الشك استواء الظنين فأحب إلي أن تغض بصرها هكذا ذكر محمد في الأصل، فقد ذكر الاستحباب في نظر المرأة إلى الرجل الأجنبي وفي عكسه قال: فليجتنب وهو دليل الحرمة، وهو الصحيح في الفصلين جميعا اهـ ملخصا ومثله في الذخيرة ونقله ط عن الهندية وفي نسخة التتارخانية التي عليها خط الشارح الاستحسان بالسين والنون بعد الحاء بدل الاستحباب بالباءين، والظاهر أنها تحريف كما يدل عليه سياق الكلام فيوافق ما في الذخيرة والهندية، فقول الشارح حرم استحسانا أوقعه فيه التحريف تأمل، ثم على مقابل الصحيح وجه الفرق كما في الهداية أن الشهوة عليهن غالبة، وهو كالمحقق اعتبارا، فإذا اشتهى الرجل كانت الشهوة موجودة في الجانبين، ولا كذلك إذا اشتهت المرأة لأن الشهوة غير موجودة في جانبه حقيقة واعتبارا فكانت من جانب واحد والمتحقق من الجانبين في الإفضاء إلى المحرم أقوى من المتحقق في جانب واحد اهـ (قوله والذمية) محترز قوله المسلمة (قوله فلا تنظر إلخ) قال في غاية البيان: وقوله تعالى - {أو نسائهن} [النور: 31]- أي الحرائر المسلمات، لأنه ليس للمؤمنة أن تتجرد بين يدي مشركة أو كتابية اهـ ونقله في العناية وغيرها عن ابن عباس، فهو تفسير مأثور وفي شرح الأستاذ عبد الغني النابلسي على هدية ابن العماد عن شرح والده الشيخ إسماعيل على الدرر والغرر: لا يحل للمسلمة أن تنكشف بين يدي يهودية أو نصرانية أو مشركة إلا أن تكون أمة لها كما في السراج، ونصاب الاحتساب ولا تنبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إليها المرأة الفاجرة لأنها تصفها عند الرجال، فلا تضع جلبابها ولا خمارها كما في السراج اهـ."

(کتاب الحظروالاباحة، ج:6، ص:371،ط: سعيد)

اللہ تعالیٰ نے  مردوں کو غیر محرم عورت کے سامنے آنے کی صورت میں غضِ بصر یعنی نگاہوں کے نیچے کرنے کاحکم دیاہے، اسی طرح خواتین کو  بھی مردوں سے نگاہوں کے محفوظ رکھنے  کا حکم دیاہے،  رسول اکرمﷺنے بد نظری کو شیطان کے تیروں میں سے زہر آلود تیر قرار دیاہے،  اور یہی بد نگاہی  زنا جیسے فحش کا م کا پیش خیمہ  بنتاہے، اس وجہ سے شریعت مطہرہ  نے غیرمحرم کی طرف دیکھنے کو ناجائز قراردیاہے۔

قرآن کریم کی سورۂ نور آیت 31 ،30میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"﴿ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ﴾"

ترجمہ : "آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ۔"

"وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪."

ترجمہ :"  اور  مسلمان عورتوں  سے کہہ دیجیے کہ ( وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور  اپنی زینت ( کے مواقع )کو ظاہر کریں، مگرجو اس (موقع زینت ) میں سے(غالباً) کھلارہتاہے( جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے)اور اپنے ڈوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہاکریں اوراپنی زینت ( کے مواقعہ  مذکورہ ) کو (کسی پر )ظاہر نہ ہونے  دیں الخ۔"(بیان القرآن )

اس آیت کے ذیل میں امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ  فرماتےہیں:

"فأمر الله سبحانه وتعالى المؤمنين والمؤمنات بغض الأبصار عما لا يحل، فلا يحل للرجل أن ينظر إلى المرأة ولا المرأة إلى الرجل، فإن علاقتها به كعلاقته بها، وقصدها منه كقصده منها."

(سورۃ النور ،آیت 31، ج: 22، ص:227، ط: دارالکتب المصرية)

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ."(سورت الاحزاب،آیت 53)

 ترجمہ:"اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر مانگاکرو،یہ بات ( ہمیشہ کے لیے ) تمہارے دلوں سے اور ان کے دلوں سے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔"(از بیان القرآن)

الترغیب والترھیب میں ہے:

"النظرة سهم مسموم من سهام ابلیس من ترکها مِن مخافتي ابدلته ایمانا یجد حلاوته في قلبه ."

ترجمہ:"نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اسے میرے خوف سے چھوڑدے، تو میں اس کے عوض ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔"

(ج:3،ص:3،ط:دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں