بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فیکٹری کے ملازم کا نماز کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اشارے سے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

میرا بھائی عرب امارات میں ایک فیکٹری میں انگریزوں کے ساتھ نوکری کرتا ہے ، وہ لوگ نماز کے لیے نہیں چھوڑتے، جب نماز کے لیے جاتا ہے تو اس سے تنخواہ کاٹ لیتے ہیں، تو آیا اشارے سے اس کی نماز ہوجائے گی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نماز ہر مسلمان بالغ عاقل مرد اور عورت پر فرض ہے، اور کسی شرعی عذر کے بغیر نماز چھوڑنا جائز نہیں ہے اور کبیرہ گناہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں بے نمازی کے لیے بہت سخت وعیدیں آئی ہیں، اس لیے آپ کے بھائی کو چاہیے کہ کسی ایسے ادارے میں نوکری کرے جہاں نماز پڑھنے کی اجازت ہو، جب تک اسی ادارے میں ہے تو بھی اہتمام کے ساتھ نماز پڑھتا رہے اور تنخواہ کی کٹوتی کو برداشت کرتا رہے، چوں کہ صحت مند آدمی کے لیے اشارے سے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے ،اس لیے آپ کے بھائی کی نماز اشارے سے ادا نہیں ہوگی، لہٰذا  آپ کے بھائی کو باقاعدہ قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ ہی نماز پڑھنی لازم ہے،دفتر وغیرہ جہاں افسران کے ساتھ ہے اسی جگہ وقت پر نماز ادا کرلے ۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي سفيان، قال: سمعت جابرا رضي الله عنه يقول: سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: «إن بين الرجل و بين الشرك و الكفر ترك الصلاة."

(‌‌كتاب الإيمان،‌‌ باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة، 16/1، ط: دار الطباعة العامرة)

"ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : نماز کا چھوڑنا بندہ مؤمن اور شرک و کفر کے درمیان (کی دیوار کو ڈھا دیتا) ہے۔ (مظاہر حق )"

مسند أحمد میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه: ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها كانت له نورا و برهانا و نجاة يوم القيامة، و من لم يحافظ عليها لم يكن له نور و لا برهان و لا نجاة و كان يوم القيامة مع قارون و فرعون و هامان و أبي بن خلف."

(‌‌مسند عبد الله بن عمرو بن العاص - رضي الله عنهما،١٤١/١١، ط: مؤسسة الرسالة)

"ترجمہ:حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر کیا (یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی، اور جو شخص نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی،) نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی، بلکہ ایسا شخص قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔(مظاہر حق)۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں