اگر میں فجر کی نماز پڑھنے جاؤں اور مسجد میں داخل ہوتے ہی جماعت کھڑی ہو جاۓ اور میں سنت ادا کیے بنا جماعت کے ساتھ مل جاؤں اور فرض نماز ادا کرنے کے فوراً بعد سنت ادا کر سکتا ہوں؟ جب کہ فجر کی نماز کا وقت بھی ابھی باقی ہو، اگر فورًا ادا نہیں کرسکتا ہوں تو کس وقت میں ادا کر سکتا ہوں؟
اگر آپ فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت شروع ہو گئی ہو تو اگر آپ کو امید ہوکہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوسکتے ہیں ، تو آپ کو چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے، یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر) فجر کی سنتیں ادا کر لیں اور پھر امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائیں ، اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ کر فرض نماز میں شامل ہوجائیں ، اور سنت رہ جانے کی صورت میں سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ سورج طلوع ہوجانے کے بعد صرف فجر کی سنت قضا کی جاسکتی ہے اور یہ حکم اسی دن کے زوال تک کے لیے ہے، اس دن کے زوال کے بعد فجر کی سنت کی قضا درست نہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل.
(قوله: و لايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لا يقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201168
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن