بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فلاحی اداروں کا زکات لے کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم


سوال

ہم نے جون 2021 میں ایک ٹرسٹ کی بنیاد رکھی،جس کے  بنیادی اور اہم درج ذیل مقاصد ہیں۔

1۔مساجد کی تعمیر۔

2۔بیواؤوں کو مکانات بنا کر دینا۔

3۔رمضان المبارک میں راشن کی تقسیم۔

4۔غریب خاندانوں کی بچیوں کو جہیز کا سامان دینا۔

5۔تھر پارکر جیسے علاقوں میں پانی کے منصوبے لگانا۔

6۔وو کیشنل سینٹرزکا قیام جن میں سیلائی کا کام سکھانا اور لینگویچ سکھانا۔

7۔پچاس بستروں کا ایک اسپتال بھی چلارہے ہیں،جس میں فری علاج ومعالجہ کیا جاتاہے۔

8۔ایسے غریب افراد اور خاندانوں کو فری میں کاروبار لگاکر دینا جو سطح غربت سے بھی نیچے سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ہمارے پاس ہر قسم کے فنڈز آتے ہیں یعنی زکات وصدقات وغیرہ۔ہم نے دو اکاؤنٹ بنارکھے ہیں،1۔جس میں زکات کے علاوہ فنڈز آتے ہیں۔2۔جس میں زکات کی رقوم آتی ہیں۔

جس  میں زکات کی رقوم آتی ہیں، اس کامصرف ہم نے یہ رکھا ہے کہ : اس کے ذریعےغریب بچیوں کو جہیز کا سامان لے کر دیتے ہیں یا غریب افر اد کو سامان لےکر مہیا کرتے ہیں یا ایسے مریض جو غریب ولاچارہیں،ان کو دوائیاں دیتے ہیں۔ان تمام تر تفصیلات کے بعد اب پوچھنا یہ ہے کہ:

مذکورہ مصارف میں” یعنی  غریب بچیوں کو جہیز  کا سامان لے کر دینے میں،غریب افراد کو سامان لےکر مہیاکرنے میں،غریب ولاچار مریض کو دوائیاں دینے میں“ زکات کی رقم خرچ کرنادرست ہے یانہیں؟اور کیا ہم اپنے مقاصد کے لیے زکات کی اپیل کرسکتے ہیں یانہیں؟

نوٹ: ہمیں کسی بھی جگہ اپیل کی صورت میں سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑی تو آپ کا جواب ہمارے لیے سرٹیفکٹ کی حیثیت رکھے گا۔

جواب

 واضح رہے کہ دارالافتاء سے صرف شرعی مسئلہ کا جواب دیاجاتاہے،لہذا یہ فتوی بھی آپ کے سوال کا جواب ہے ،یہ تصدیقی یاسفارشی سرٹیفکٹ نہیں ہےاور نہ اسے زکات جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہےکہ کوئی فلاحی ادارہ کسی مسلمان،غیر ہاشمی (یعنی سید یا عباسی وغیرہ کے علاوہ) مستحقِ زکات  کو مالک بناکر زکات  كی مد میں   سوال میں ذکر کردہ مصارف ” یعنی  غریب بچیوں کو جہیز  کا سامان لے کر دینے میں،غریب افراد کو سامان لےکر مہیاکرنے میں اورغریب ولاچار مریض کو دوائیاں دینے میں“ میں دیتی  ہے  تو زکات کی رقم جمع  کرکے ان مذکورہ مصارف میں   خرچ کرنا درست ہے۔

 مستحق زکات سے مراد : جس کے پاس  بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی / علوی نہ ہو۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن عبد الرحمن بن خباب) ، بفتح الخاء المعجمة وتشديد الموحدة الأولى ولم يذكره المؤلف في أسمائه. (قال: شهدت النبي - صلى الله عليه وسلم - أي: حضرته (وهو يحث) : بضم حاء وتشديد مثلثة أي: يحرض (الناس على جيش العسرة) ، أي: على ترتيب غزوة تبوك، وسميت جيش العسرة لأنها كانت في زمان اشتداد الحر والقحط وقلة الزاد والماء والمركب بحيث يعسر عليهم الخروج من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم لما كانت المناهضة إلى عدو جم العدد شديد البأس بالنسبة إلى المسلمين مع كثرتهم حينئذ، فإنه قيل على ما ذكره شارح: كان مع النبي - صلى الله عليه وسلم - يوم بدر ثلاثمائة وثلاثة عشر، ويوم أحد سبعمائة، ويوم الحديبية ألف وخمسمائة، ويوم الفتح عشرة آلاف، ويوم حنين اثنا عشر ألفا وهي آخر مغازيه. (فقام عثمان) ، أي: بعد حثه - عليه السلام - (فقال: يا رسول الله، علي) ، أي: نذر علي (مائة بعير بأحلاسها) ، أي: مع جلالها (وأقتابها) ، أي: رحالها. قال التوربشتي وغيره: الأحلاس جمع حلس بالكسر وسكون اللام، وهو كساء رقيق يجعل تحت البرذعة، والأقتاب: جمع قتب بفتحتين وهو رحل صغير على قدر سنام البعير وهو للجمل كالإكاف لغيره يريد: علي هذه الإبل بجميع أسبابها وأدواتها. (في سبيل الله) أي: في.طريق رضاه (ثم حض) : بتشديد المعجمة أي: حث وحرض (على الجيش) ، أي: في ذلك المقام أو في غيره من الزمان (فقام عثمان، فقال: علي مائتا بعير) ، أي: غير تلك المائة لا بانضمامها كما يتوهم، والله أعلم. (بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله، ثم حض) ، أي: ثالثا. وفي رواية: ثم حض على الجيش (فقام عثمان، فقال: علي ثلاثمائة بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله) ، فالتزم عثمان - رضي الله عنه - في كل مرتبة بحكم رتبة المقام، ففي المقام الأول ضمن مائة واحدة، وفي الثاني مائتين، وفي الثالث ثلاثمائة فالمجموع ستمائة، وسيأتي له من الزيادة.(قال طلحة: فأنا) ، أي: بنفسي من غير أن أسمع من غيري (رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ينزل عن المنبر وهو يقول: (ما على عثمان) : ما هذه نافية بمعنى ليس، وفي قوله: (ما عمل بعد هذه) ، موصولة اسم ليس أي: ليس عليه ولا يضره الذي يعمل في جميع عمره بعد هذه الحسنة، والمعنى أنها مكفرة لذنوبه الماضية مع زيادة سيئاته الآتية كما ورد في ثواب صلاة الجماعة، وفيه إشارة إلى بشارة له بحسن الخاتمة وقال شارح: (ما) فيه إما موصولة أي: ما بأس عليه الذي عمله من الذنوب بعد هذه العطايا في سبيل الله، أو مصدرية أي: ما على عثمان عمل من النوافل بعد هذه العطايا ; لأن تلك الحسنة تنوب عن جميع النوافل. قال المظهر، أي: ما عليه أن لا يعمل بعد هذه من النوافل دون الفرائض، لأن تلك الحسنة تكفيه عن جميع النوافل اهـ. وهو حاصل المعنى، وإلا فلا يطابق المبنى (ما على عثمان ما عمل بعد هذه) . كرره تأكيدا لما قرره. قال الطيبي ونحوه قوله - صلى الله عليه وسلم - في حديث حاطب بن أبي بلتعة: ( «لعل الله قد اطلع على أهل بدر فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم» ) اهـ. ولا يخفى ما بينهما من الفرق عند ذوي النهى، وإذ الأول مجزوم به قطعا والثاني مبني على الرجاء. (رواه الترمذي) . وكذا رواه أحمد وقال في آخره قال: فرأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول بيده هكذا يحركها، وأخرج عبد الصمد: يحرك يده كالمتعجب: ما على عثمان ما عمل بعدها. وقال أبو عمرو: جهز عثمان جيش العسرة بتسعمائة وخمسين بعيرا وأتم للألف بخمسين فرسا. وعن ابن شهاب الزهري قال: حمل عثمان بن عفان في غزوة تبوك على تسعمائة وأربعين بعيرا وستين فرسا أتم الألف بها أخرجه القزويني والحاكمي."

(کتاب المناقب، باب مناقب عثمان رضي الله عنه، ج:9، ص:3909، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی  میں ہے۔

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)لعدم التمليك وهو الركن."

(کتاب الزکوٰۃ،باب المصرف،ج: 2، ص: 393، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهادوكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين، ولايشترى بها عبد يعتق."

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج: 1، ص: 188، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608100814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں