بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فلاحی کاموں کی کمیٹی بنانے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم برادری کے لوگوں نے مل کر اپنی برادری کے لوگوں کے لیے فلاحی کمیٹی بنائی ہے، مستقبل میں ہم ان شاءاللہ اس کو ٹرسٹ یا فاؤنڈیشن وغیرہ کا نام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چندے کا طریقۂ کار یہ ہے کہ جو آدمی اپنی استطاعت کے مطابق جس قدر دینا چاہے، وہ دے سکتا ہے، لیکن باہمی مشورے سے برادری کے ہر شادی شدہ آدمی پر کچھ رقم مقرر ہوتی ہے اور برادری کے سب لوگ اس پر راضی بھی ہیں۔ اگر کوئی شخص مقرر کردہ رقم ادا نہیں کر سکتا تو اس کو دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، بلکہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق مقرر کردہ رقم سے کم بھی دے سکتا ہے، مقرر کردہ رقم لازم نہیں ہے۔

کمیٹی  کے اغراض و مقاصد دج ذیل ہیں:۔

۱- فلاحِ انسانیت کے لیے ہر ممکنہ کوشش کرنا اور پریشانی میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد و اعانت کرنا۔

۲- برادری کے لوگوں کے دلوں میں سخاوت، ایثار اور خدمتِ انسانیت کا جذبہ پیدا کرنا۔

۳- برادری میں میت ہونے کی صورت میں کھانے پینے کا انتظام کرنا اور وارثین اور مہمانوں کے لیے۔

۴- میت کے لیے قبر اور کفن وغیرہ کا انتظام کرنا۔

۵- تعزیت پر آنے والے مہمانوں کے لیے کرسیاں اور دوسری ضرورت کے سامان کا انتظام کرنا اور اس کے اخراجات برداشت کرنا۔

۶- کراچی کی سطح پر برادری کے لیے ایک خاندانی قبرستان کا انتظام کرنا۔

۷- میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر یا گاؤں لے جانے کے اخراجات برداشت کرنا۔

۸- دوسرے شہر یا گاؤں میں فوتگی ہونے کی صورت میں جانے والے وارثوں کے لیے ٹکٹ وغیرہ کا انتظام کرنا۔

۹- سخت بیماری میں مبتلا مریض کے علاج و معالجے کا انتظام کرنا۔

۱۰- مرض الموت میں مبتلا مریض کو دوسرے شہر یا گاؤں لے جانے کے اخراجات برداشت کرنا۔

۱۱- ایکسیڈنٹ یا دوسرے حادثے میں مبتلا شخص کے علاج اور نقصان کی ممکنہ تلافی کرنا۔

۱۲- بیوہ کے لیے گھر اور گھر کے اخراجات کا انتظام کرنا۔

۱۳- بچوں کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا اور مستحق بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا۔

۱۴- گاؤں کی سطح پر ائمہ مساجد اور قراء حضرات کے مشاہرے کا انتظام کرنا۔

۱۵- غربت و قرضے میں مبتلا شخص کے بچوں کے اور بچوں کی شادی کے شرعی اخراجات برداشت کرنا۔ 

عرض یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت اس قدر وسائل نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم تمام مقاصد پر عمل کر سکیں، بلکہ برادری کے لوگوں کی اہم ضروریات اور اس کے مطابق وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ضروری مقاصد پر کام کریں گے۔ جیسے جیسے ہمارے وسائل میں اضافہ ہوگا ہم دوسرے مقاصد اور فلاحی کاموں پر کام کرتے رہیں گے۔ کون کون سے مقاصد اہم ہیں اور برادری کے لوگوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے اور اس پر پہلے کام ہونا چاہیے، یہ فیصلہ کمیٹی کرے گی۔ لیکن ہمارا عزم ہر قسم کے فلاحی کاموں میں حصہ لینا ہے اور ہر قسم کی پریشانی کے موقع پر برادری کے لوگوں کی مدد واعانت کرنا ہے۔برائے کرم قران و حدیث کی روشنی میں جو مقاصد شریعت کے خلاف ہوں اس کی نشاندہی فرمائیں اور اس کا متبادل جو شریعت کے موافق ہو رہنمائی فرمائیں۔ بعض مفادات پر کام کرنا اور بعض کو وسائل کی کمی کی وجہ سے وسائل آنے تک ترک کر دینا صحیح ہے یا نہیں؟ چندے  کے طریقہ کار پر وضاحت فرمائیں؟ کیا برادری کے لوگوں کے فلاحی کاموں کے لیے برادری کے لوگوں کو اس طرح متفق و متحد ہونا چاہیے یا نہیں؟ برائے کرم مدلل و مفصل وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کمیٹی کے مقاصد بظاہر نیک اور ہمدردانہ ہیں، لیکن اس جیسی کمیٹی میں کم از کم بھی مندرجہ ذیل دو خرابیاں کا پایا جانا تو ظاہر ہے:۔

۱- مثلاً برادری کے ہر شادی شدہ شخص پر ایک مخصوص رقم مقرر کی گئی ہے، اگر چہ یہ مخصوص رقم لازم نہیں، لیکن مقرر کرنے کے بعد بسا اوقات آدمی مروت کی وجہ سے بادلِ نخواستہ بھی ادا کرتا ہے، حالاں کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . ”خبردار ظلم مت کرنا! جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال (لینا یا استعمال کرنا) اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔“

۲- بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ برادری کا جو شخص رقم جمع نہیں کرا تا خواہ کسی بھی وجہ سے وہ رقم جمع نہ کرائے تو اس کو مذکورہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی فلاحی امور کے لیے نہیں، بلکہ ان لوگوں کے مفاد کے لیے ہے جو اس میں ماہانہ رقم جمع کر اتے ہیں۔ اس صورت یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اگر مندرجہ بالا خرابیاں اور دیگر غیر شرعی امور نہ پائے جائیں، جیسے کسی پر کچھ رقم بھی مقرر نہ کی جائے، بلکہ جو مخیر  حضرات از خود رقم دینا چاہیں، تو وہ  دے دیں اور اس رقم کے ذریعے شرعی حدود میں رہتے ہوئے مذکورہ فلاحی کام انجام دیے جائیں،نیز ان لوگوں کو بھی وہ سہولتیں میسر ہوں جو تعاون نہیں کر سکتے تو اس طرح کی کمیٹی بنانے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر نیک مقاصد کے لیے ہو تو باعثِ ثواب ہے۔ نیز نیک کاموں میں برادری کا اتفاق بہت اچھی بات ہے، مگر ناجائز امور میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا درست نہیں۔ اسی طرح جب تک وسائل پورے نہ ہوں تو جتنے وسائل مہیا ہوں، انہی کو استعمال کرتے ہوئے نیک کام انجام دیے جاسکتے ہیں۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ"  (سورہ مائدہ : 2)

ترجمہ:۔ ”اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور الله تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ الله تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں ۔“

معارف القرآن ميں ہے:

”یہ سورۃ مائدہ کی دوسری آیت کا آخری جملہ ہے۔ اس میں قرآن حکیم نے ایک ایسے اصولی اور بنیادی مسئلہ کے متعلق ایک حکیمانہ فیصلہ دیا ہے جو پورے نظام عالم کی روح ہے۔ اور جس پر انسان کی ہر اصلاح و فلاح بلکہ خود اس کی زندگی اور بقا موقوف ہے وہ مسئلہ ہے باہمی تعاون و تناصر کا۔ ہر ذی ہوش انسان جانتا ہے کہ اس دنیا کا پورا انتظام انسانوں کے باہمی تعاون و تناصر پر قائم ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی مدد نہ کرے تو کوئی اکیلا انسان خواہ وہ کتنا ہی عقلمند یا کتنا ہی زور آور یا مالدار ہو، اپنی ضرورت زندگی کو تنہا حاصل نہیں کر سکتا۔ اکیلا انسان نہ اپنی غذا کے لئے غلہ اگانے سے لے کر کھانے کے قابل بنانے تک کے تمام مراحل کو طے کرسکتا ہے۔ نہ لباس وغیرہ کے لئے روئی کی کاشت سے لے کر اپنے بدن کے موافق کپڑا تیار کرنے تک بیشمار مسائل کا حل کرسکتا ہے اور نہ اپنے بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے۔ غرض ہر انسان اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں دوسرے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کا محتاج ہے۔ ان کے باہمی تعاون و تناصر سے ہی سارا دنیا کا نظام چلتا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ تعاون دنیوی زندگی ہی میں ضروری نہیں ۔ مرنے سے لے کر قبر میں دفن ہونے تک کے سارے مراحل بھی اسی تعاون کے محتاج ہیں ۔ بلکہ اس کے بعد بھی اپنے پیچھے رہنے والوں کی دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا محتاج رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

خلاصہ یہ ہے کہ ساری دنیا کا نظام باہمی تعلق پر قائم ہے۔ لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ اگر جرائم ، چوری، ڈاکہ، قتل و غارتگری وغیرہ کے لئے یہ باہمی تعاون ہونے لگے۔ چور اور ڈاکوؤں کی بڑی بڑی اور منظم قوی جماعتیں بن جائیں تو یہی تعاون و تناصر اس عالم کے سارے نظام کو درہم برہم بھی کرسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ باہمی تعاون ایک دو دھاری تلوار ہے جو اپنے اوپر بھی چل سکتی ہے۔ اور نظام عالم کو برباد بھی کرسکتی ہے۔ اور یہ عالم چونکہ خیروشر اور اچھے برے، نیک و بد کا ایک مرکب معجون ہے۔ اس لئے اس میں ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں تھا کہ جرائم اور قتل و غارت یا نقصان رسانی کے لئے باہمی تعاون کی قوت استعمال کرنے لگیں ۔ اور یہ صرف احتمال نہیں بلکہ واقعہ بن کر دنیا کے سامنے آگیا۔ تو اس کے رد عمل کے طور پر عقلائے دنیا نے اپنے تحفظ کے لئے مختلف نظریوں پر خاص خاص جماعتوں یا قوموں کی بنیاد ڈالی۔ کہ ایک جماعت یا ایک قوم کے خلاف جب کوئی دوسری جماعت یا قوم حملہ آور ہو تو یہ سب ان کے مقابلہ میں باہمی تعاون کی قوت کو استعمال کرکے مدافعت کر سکیں ۔.........

آیت مذکورہ میں قرآن حکیم نے تعاون و تناصر کا یہی معقول اور صحیح اصول بتلایا ہے، وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونو علی الاثم والعدوان۔ یعنی نیکی اور خدا ترسی پر تعاون کرو ، بدی اور ظلم پر تعاون نہ کرو ۔غور کیجئے کہ اس میں قرآن کریم نے یہ عنوان بھی اختیار نہیں فرمایا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرو اور غیروں کے ساتھ نہ کرو ، بلکہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے کی جو اصل بنیاد ہے، یعنی نیکی اور خدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم و جور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی بھی مدد نہ کرو ۔ بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ناحق اور ظلم سے اس کا ہاتھ روکو ۔ کیونکہ در حقیقت یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم وجور سے اس کی دنیا اور آخرت تباہ نہ ہو ۔
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :انصراخاک ظالماً اومظلوماً، یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو قرآنی تعلیم میں رنگے جا چکے تھے، انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مظلوم بھائی کی امداد تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم کی امداد کا کیا مطلب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو،  یہی اس کی امداد ہے۔“

(معارف ومسائل، ج:3، ص:24،22، ط: مکتبہ معارف القرآن)

مثکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 889، ط: المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری وسمي القمار قماراً؛ لأن کلَّ واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذهب ماله إلی صاحبه، ویجوز أن یستفید مال صاحبه وهو حرام بالنص."

( کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، ج: 4، ص: 404، ط: ایچ ایم سعید)

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں:۔

میت کمیٹی کی شرعی حیثیت

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں