بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فقیر اور مال دار کا مل کر قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں مزید افراد کو شریک کرنا


سوال

ایک فقیر اور مال دار آدمی نے مل کر قربانی کے لیے جانور خریدا، اب وہ دوسروں کو شریک کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ  غریب اور مال دار آدمی نے جانور خریدتے وقت مزید افراد کو  اس  میں شریک کرنے کی نیت کی تھی تو ان کے لیے  مزید افراد کو شریک کرنا جائز ہے، البتہ بہتر یہی ہے خریدنے سے پہلے شریک کریں۔

اور اگر مزید افراد کو شریک کرنے کی نیت  نہیں کی تھی تو  اس صورت میں مال دار شخص کے لیے  اپنے حصوں میں سے کسی حصے میں کسی اور کو شریک کرنا مکروہ  ہے، البتہ اگر کرلے تو  بھی سب کی قربانی ہوجائے گی۔

اور غریب شخص کے لیے اپنے حصوں میں سے کسی  حصے میں دوسرے کو شریک کرنا جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس نے جتنے حصے اپنے لیے متعین کرلیے وہ اس پر قربانی کے لیے لازم ہوگیے، لہذا اب کسی اور اس میں  شریک نہیں کرسکتا اگر شریک کرلیا تو  ان  حصوں کی رقم صدقہ کرنا لازم ہوگی۔

الفتاوى الهندية (5/ 304):

"و لو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستةً يكره و يجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلايكره، و إن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، و هذا إذا كان موسراً، و إن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلايجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستةً بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 317):

"(وصح) (اشتراك ستة في بدنة شريت لأضحية) أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحساناً وإلا لا (استحساناً و ذا) أي الاشتراك (قبل الشراء أحب.

(قوله: أي إن نوى وقت الشراء الاشتراك صح استحسانًا وإلا لا)، كذا في بعض النسخ، و الواجب إسقاطه كما في بعض النسخ؛ لأن موضوع المسألة الاستحسانية أن يشتريها ليضحي بها عن نفسه، كما في الهداية و الخانية و غيرهما، و لذا قال المصنف بعد قوله: استحساناً: وذا قبل الشراء أحب. وفي الهداية: والأحسن أن يفعل ذلك قبل الشراء؛ ليكون أبعد عن الخلاف وعن صورة الرجوع في القربة اهـ. و في الخانية: و لو لم ينو عند الشراء ثم أشركهم فقد كرهه أبو حنيفة.
أقول: وقدمنا في باب الهدي عن فتح القدير معزواً إلى الأصل و المبسوط: إذا اشترى بدنةً لمتعة مثلاً ثم أشرك فيها ستةً بعدما أوجبها لنفسه خاصةً لايسعه؛ لأنه لما أوجبها صار الكل واجباً بعضها بإيجاب الشرع و بعضها بإيجابه، فإن فعل فعليه أن يتصدق بالثمن، و إن نوى أن يشرك فيها ستةً أجزأته؛ لأنه ما أوجب الكل على نفسه بالشراء، فإن لم يكن له نية عند الشراء و لكن لم يوجبها حتى شرك الستة جاز. والأفضل أن يكون ابتداء الشراء منهم أو من أحدهم بأمر الباقين حتى تثبت الشركة في الابتداء اهـ ولعله محمول على الفقير أو على أنه أوجبها بالنذر، أو يفرق بين الهدي والأضحية، تأمل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں