بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض حج افضل ہے یا صدقات ؟


سوال

 اگر کوئی ایسا شخص ہو جس پر حج فرض ہوچکا ہو اور اس کے سامنے کوئی دینی مصرف ہو جہاں پیسوں کی سخت ضرورت ہو مثلا جیسے فلسطین میں مجاہدین یا مظلوموں کی امداد کرنا یا کسی بڑے دینی مدرسے کے قرضوں کی ادائیگی میں معاونت کرنا یا کسی دینی ادارے کی تعمیر میں معاونت کرنا یا وہ ان پیسوں کو صدقه جاریہ میں لگانا چاہتا ہو مثلا مسجد بنانے کے لیے اوراس کے پاس اتنے ہی پیسے ہوں کہ ان پیسوں سے یا تو حج کرسکتا ہو یا ان دینی مصارف پر خرچہ کر سکتا ہو، تو اس کے لیے  فرض حج کرنا زیادہ افضل ہے یا اوپر ذکر کردہ مصارف پر خرچ کرنا زیادہ افضل ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں فرض حج  کی ادائیگی مذکورہ تمام مصارف پر مقدم ہے ،لہذاذکرکردہ مصارف  میں خرچ کرنے سے پہلے  فرض  حج کی ادائیگی ضروری ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: «خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا أيها الناس قد فرض عليكم الحج فحجوا۔۔۔الخ.

وقال ابن الهمام: فرضية الحج كانت سنة تسع، أو سنة خمس، أو سنة ست وتأخيره عليه الصلاة والسلام ليس يتحقق فيه تعريض الفوات وهو الموجب للفور."

(كتاب المناسك، الفصل الأول، ج: 5،ص: 1740، رقم: 2505، ط: دار الفكر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لا يجب في العمر إلا مرة كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلا يباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني كذا في خزانة المفتين. فإذا أخره، وأدى بعد ذلك وقع أداء كذا في البحر الرائق وعند محمد - رحمه الله تعالى - يجب على التراخي والتعجيل أفضل كذا في الخلاصة."

(كتاب المناسك، الباب الأول، ج: 1، ص: 216، ط: دار الفكر)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"سوال:    زید کہتا ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ خدا تعالیٰ اگر مجھے روپیہ دے تو میں اپنے بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی کروں (وہ تنگ دست ہیں ) اور وسعت ہونے پر کنواں اور مسجد بنواؤں ۔ اگر خدا تعالیٰ اس کو مال عطا فرماویں تو وہ پہلے حج ادا کرے یااپنے بھائیوں کو روپیہ دے یا مسجد یا کنواں بناوے۔

 جواب:   جب روپیہ ہو جاوے اور حج فرض ہو جاوے تو پہلے حج کرے پھر غریب بھائیوں کی امداد ، پھر مسجد و چاہ   بنوائے۔"

(کتاب المناسک،باب اول حج کی فرضیت ، ج:6، ص318، ط:دارالإشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511101209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں