بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

فارکس ٹریڈنگ کا حکم


سوال

فارکس ٹریڈنگ سرمایہ کاری کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

فاریکس  (forex)  کے نام سے بین الاقوامی سطح پرجوکاروبار رائج ہے،اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں،  وہ شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے ،جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے،  یا نقد ہوتی ہے،  مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ۔الحاصل تقابض (جانبین سے قبضہ) نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2)   اصول ہے کہ بیع شرطِ  فاسد   سے  فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس"  کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps (بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) اس میں  "فیوچر سیل " بھی  ہوتی ہے اور وہ  ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خرید و فروخت ناجائز ہے۔

(5) کاروبار کے اس طریقے میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فی صد  لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کے اتار چڑہاؤ  کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں،اور یہ ناجائز ہے۔

کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف  نہیں ہوتی اور اس وجہ سے  اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن   اس میں "بیع قبل القبض" (قبضہ سے پہلے فروخت کرنا)، "بیع مضاف الی المستقبل" (مستقبل کی بیع)  اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جن کا اوپر بیان ہوا۔ نیز  اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے  اگر اس میں نقصان ہو جائے  تو  بروکر کو   اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب کہ شرعاً بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اور اختیار نہیں ہوتا اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع و نقصان اس کے ذمہ ہے، نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔ 

مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط (فمنها) قبض البدلين قبل الافتراق لقوله: عليه الصلاة والسلام في الحديث المشهور "والذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد".وروي عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز" .وروي عن عبد الله ابن سيدنا عمر عن أبيه رضي الله عنهما أنه قال: لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تبيعوا الذهب بالورق أحدهما غائب والآخر ناجز، وإن استنظرك حتى يلج بيته فلا تنظره إني أخاف عليكم الرماء أي: الربا، فدلت هذه النصوص على اشتراط قبض البدلين قبل الافتراق، وتفسير الافتراق هو أن يفترق العاقدان بأبدانهما عن مجلسهما فيأخذ هذا في جهة وهذا في جهة أو يذهب أحدهما ويبقى الآخر حتى لو كانا في مجلسهما لم يبرحا عنه لم يكونا مفترقين وإن طال مجلسهما؛ لانعدام الافتراق بأبدانهما."

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصرف، ج:5، ص:215، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

وفیہ ایضاً:

"وأما شرائط صحة الإقالة (فمنها) رضا المتقايلين أما على أصل أبي يوسف فظاهر؛ لأنه بيع مطلق، والرضا شرط صحة البياعات.وأما على أصل أبي حنيفة ومحمد وزفر فلأنها فسخ العقد، والعقد لم ينعقد على الصحة إلا بتراضيهما أيضا (ومنها) المجلس لما ذكرنا أن معنى البيع موجود فيها فيشترط لها المجلس كما يشترط للبيع (ومنها) تقابض بدلي الصرف في إقالة الصرف، وهذا على أصل أبي يوسف ظاهر، وكذلك على أصل أبي حنيفة؛ لأن قبض البدلين إنما، وجب حقا لله تعالى ألا ترى أنه لا يسقط بإسقاط العبد، والإقالة على أصله، وإن كانت فسخا في حق العاقدين، فهي بيع جديد في حق ثالث فكان حق الشرع في حكم ثالث فيجعل بيعا في حقه."

(كتاب البيوع، فصل في بيان ما يرفع حكم البيع، ج:5، ص:308، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

درر الحکام شرح مجلۃ الاَحکام العدلیۃ میں ہے:

"أي ليس لأحد المتبايعين أو ورثته في البيع النافذ اللازم أن يرجع عنه بدون رضاء الآخر بوجه من الوجوه.انظر شرح المادة (114) ولو لم يتفرقا من مجلس العقد خلافا للشافعي فإن العقد لما كان تاما بين العاقدين وأصبح المبيع داخلا في ملك المشتري فبقاء الخيار لأحدهما بعد ذلك مستلزم لإبطال حق الآخر وفيه من الضرر ما لا يخفى والضرر بحكم المادة (19) ممنوع.وقوله " لأحد المتبايعين "، ليس احترازا عن الورثة فإذا توفي أحد المتبايعين؛ فليس لورثته حق الرجوع عن المبيع.(الأشباه قبل الكفالة، وأبو السعود والدرر، والغرر) أما الطرفان؛ فلهما بالتراضي أن يتقايلا البيع كما قد بين في الفصل الخامس للباب الأول."

(الكتاب الأول البيوع، الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه، الفصل الثاني في بيان أحكام أنواع البيوع، المادۃ:375، ج:1، ص:401، ط:دار الجيل)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال أصحابنا رحمهم الله كل لفظين ينبئان عن التمليك والتملك على صيغة الماضي أو الحال ينعقد بهما البيع كذا في المحيط فارسية كانت أو عربية أو نحوهما هكذا في التتار خانية وينعقد بالماضي بلا نية وبالمضارع بها على الأصح كذا في البحر الرائق فإذا قال البائع أبيع منك هذا العبد بألف أو أبذله أو أعطيكه وقال المشتري أشتريه منك أو آخذه ونويا الإيجاب للحال أو كان أحدهما بلفظ الماضي والآخر بالمستقبل مع نية الإيجاب للحال فإنه ينعقد وإن لم ينو لا ينعقد هكذا في القنية وأما ما تمحض للحال كأبيعك الآن فلا يحتاج إليها وأما ما تمحض للاستقبال كالمقرون بالسين وسوف أو الأمر فلا ينعقد به إلا إذا دل الأمر على المعنى المذكور كخذه بكذا فقال أخذته فإنه كالماضي كذا في النهر الفائق سئل أبو الليث الكبير عمن قال لآخر خذ هذا الثوب بعشرة فقال أخذت ثم البائع قال لا أعطيك قال ليس له ذلك وكذلك المشتري ليس له أن يمتنع بعد قوله أخذت كذا في المحيط ثم إذا كان بلفظ الأمر فلا بد من ثلاثة ألفاظ كما إذا قال البائع اشتر مني فقال اشتريت فلا ينعقد ما لم يقل البائع بعت أو يقول المشتري بع مني فيقول: بعت فلا بد من أن يقول ثانيا: اشتريت كذا في السراج الوهاج."

(كتاب البيوع، الباب الثاني فيما يرجع إلى انعقاد البيع ، الفصل الأول فيما يرجع إلى انعقاد البيع، ج:3، ص:4، ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضاً:

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه ‌قبل ‌القبض؛ لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه ‌قبل ‌القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله."

(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:180، ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں