بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

فروخت کنندہ کا واجب الادا رقم کی ادائیگی تک کرایہ وصول کرنا


سوال

 ہم نے ایک فلیٹ  52 لاکھ کا خریدا ہے۔ 42 لاکھ روپے  ادا کردیے ہیں، اور دس لاکھ فی الحال روک لیے ہیں؛  کیوں کہ  یہ فلیٹ جس سے ہم نے خریدا ہے اس کے نام نہیں ہے،  بلڈر  کے نام ہے ، اور حکومت کی طرف  سے سب  لیز بند ہے،  اس وجہ سے  ہمارے نام بھی نہیں ہو سکتا،  ہم نے فروخت کنندہ کو کہا ہے کہ جب ہمارے نام لیز ہوجائے گا تو ہم دس لاکھ دیں گے۔ اور ہم لیز  کے لیے فروخت کنندہ کو ایک لاکھ  روپے  الگ سے ادا کر چکے ہیں۔

اب ان دس لاکھ کے عوض  فروخت کنندہ  ہم سے چار ہزار دو سو روپے کرایہ مانگ رہا ہے۔

کیا ہمارے لیے یہ کرایہ دینا درست ہے یا یہ سود کے ضمن میں  آئے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سودا ہوجانے کے بعد مذکورہ فلیٹ پر سائل کی ملکیت ثابت ہوچکی ہے، اور فروخت کنندہ کی ملکیت  ختم ہوچکی ہے، البتہ دس لاکھ  روپے سائل پر واجب الادا  ہیں،  مذکورہ واجب الادا  دس لاکھ روپے کی ادائیگی  تک فروخت  کنندہ کا خریدار  سے ماہانہ چار ہزار دو  سو روپے کرایہ کے طور پر وصول کرنا صریح سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔

إعلاء السنن میں ہے:

"عن علي أمير المؤمنين رضي الله عنه مرفوعا: كل قرض جر منفعة فهو ربا ... وقال الموفق: وكل قرض شرط فيه الزيادة فهو حرام بلا خلاف."

(كتاب الحوالة، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، ١٤ / ٥١٢، ط: إدارة القرآن)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511102138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں