بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی طور پر جہری دعا کا حکم/تیجہ، تعزیتی اجلاس، قرآن خوانی اور ربیع الاول کی مجالس کا حکم


سوال

میری عمر 60 سال ہے۔ میرا تعلق میں میمن برادری سے ہے۔ نوجوانی میں، میرا تعلق بریلوی مسلک سے تھا، انہی کے مسجد میں نماز پڑھتا تھا اور ان کی رسومات میں شریک ہوتا تھا۔ ہماری برادری میں لوگ دین سے بڑی محبت کرتے ہیں، نماز روزہ حج وغیرہ کا خوب اہتمام تھا، لیکن دینی معلومات نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہماری مسجد میں ہر نماز کے بعد جہراً دعا ہوا کرتی تھی۔ مجھے بریلوی اور دیوبندی مسلک کی کوئی معلومات نہ تھی، البتہ جب دیوبندی مساجد میں جانا ہوتا، تو وہاں دعا جہراً نہ ہوتی تھی، ہماری برادری والے اس کو بہت برا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو یہ لوگ نہ دعا مانگتے ہیں اور نہ ہی درود پڑھتے ہیں۔ اس وقت مجھے شوق ہوا  کچھ پڑھنے کا، تو میں نے مفتی رشید صاحب اور مفتی شفیع صاحب نور اللہ مرقدہما کے  دعا کے متعلق رسالے مطالعہ کیے، اگر چہ وہ خالص علمی نوعیت کے تھے، لیکن اس وقت کا تعلیمی معیار اچھا ہونے کی وجہ سے کچھ سمجھ آگئے۔ اس کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی دیکھیں جو دیوبندی مسلک میں نہیں تھیں، مثلا تیجہ، چالیسواں اور ربیع الاول کے مجالس، لیکن کچھ عرصے سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دیوبندی مساجد میں بعض مستند ادارے کے مدرسین نماز کی امامت کرواتے ہیں اور وہ خود بھی عوام میں اور علماء میں مشہور ہیں، اپنی مساجد میں بالالتزام جہراً دعا کرتے ہیں، جبکہ بعض دفعہ یہ دعا بریلوی مساجد میں ہونے والی دعا سے بھی لمبی ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میت پر قران خوانی کا اہتمام، تعزیتی مجالس کا اہتمام اور ربیع الاول کی مجالس کا اہتمام برملا ہو رہا ہے۔ ہماری جوانی کے بعض رفقاء الزام دیتے ہیں کہ دیوبندیوں کا کوئی سر پیر نہیں کہ جس چیز سے منع کرتے ہیں، بعد میں خود اس کو سنت قرار دے کر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات سے میں مستقل رنج میں ہوں۔چوں کہ بنوری ٹاؤن ایک عالمی ادارہ ہے  اور اس کے فتاوی کی حیثیت بھی عالمی ہے،اس لیے میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے یہ بتایا جائے کہ فرض نماز کے بعد جہرا دعا کرنے کے بارے میں بنوری ٹاؤن کے علماء کیا کہتے ہیں، کیا پہلے ناجائز تھا، اب جائز ہو گیا ہے؟

اس کے علاوہ دوسری رسومات (تیجہ، تعزیتی مجالس، قران خوانی اور ربیع الاول کی مجالس وغیرہ جن کا اکابرین پہلے منع کرتے تھے، کیا اب وہ جائز قرار دے دی گئی ہیں؟ مجھے امید ہے کہ آپ میری پریشانی کو سمجھتے ہوئے مجھے جواب دیں گے۔

جواب

واضح رہے کہ فرض  نماز کے بعد دعا کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہے اور   فرض نمازوں کے بعد دعا کا مقبول ہونا بھی مختلف احادیث میں وارد ہے، لہذا فرض نماز کے بعد دعا کر نا مستحب ہے، چاہے امام ہو یامقتدی یامنفرد، اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی ، تو اجتماعی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، جب کہ اسے ضروری نہ سمجھا جاتا ہو،کیوں کہ اصل مقصود دعا ہے اور اجتماع ضمنی طور پر پایا جاتا ہے۔نیز دعا میں سر افضل ہے، البتہ کبھی کبھار امام تعلیماً جہری دعا کراسکتا ہے بشرطیکہ دیگر مفاسد نہ پائے جاتے ہوں اور اس کو لازم نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن اگر اسے ضروری سمجھا جائے اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن کیا جائے تو پھر یہ بدعت ہے۔باقی جن نمازوں کے بعد سنن مؤکدہ ہیں ، ان نمازوں کے بعد دعا کو مسنون اذکار سے زیادہ طویل کرنا خلاف اولیٰ ہے اور جن نمازوں کے بعد سنت مؤکدہ نہیں ہیں، ان نمازوں کے بعد لمبی دعا کی جاسکتی ہے، اور کبھی دعاء مطلقا ترک بھی کی جا سکتی ہے، تاکہ التزام لازم نہ آئے۔

آپ کا دوسرا سوال مختلف رسومات کے متعلق ہے کہ وہ جائز ہیں یا نہیں؟، لہذا ہر ایک رسم سے متعلق  کا جواب درج ذیل ہے۔

تیجہ  اور قرآن خوانی:۔

واضح رہے کہ میت کے ایصال ثواب کے قرآن پڑھنا، غریبوں کو کھانا کھلانا اور دیگر نفلی عبادت کرنا شریعت میں پسندیدہ اور مستحن ہے، البتہ اس کے لیے خاص دن اور خاص کیفیت مقرر نا اور اس کو باعث شواب قرار دیناشریعت میں درست نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ لہذا مروجہ سوئم، دسویں تیجہ برسی بدعت ہے، البتہ میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

(۱) قرآن خوانی کی اجرت کا لین دین نہ ہو۔

(۲)کسی دن مثلاً  انتقال کے تیسرے دن، پھر  ساتویں، دسویں، چالیسویں، سالانہ وغیرہ،جیسا کہ عوام میں برسی، عرس اور چہلم وغیرہ کے نام سے معروف ہے، یا تاریخ مثلاً  پندرہویں شعبان، دسویں محرم وغیرہ کی تخصیص نہ کی جائے۔

(۳)کسی ہیئت کی تخصیص نہ ہو، مثلاً کھانا سامنے رکھ کر چاروں قل اور پنج آیات پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا، یا کسی دوسری سورت مثلا سورت اخلاص، سورت انعام وغیرہ کی تخصیص کرنا۔

(۴)قرآن خوانی میں شرکت برادری  کے دباؤ یا بدنامی کے ڈر سے نہ ہو، اور شرکت نہ کرنے والوں پر طعن و طنز نہ کیا جائے۔

(۵)جو لوگ قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، نمود و ریا، شہرت و تفاخر اور حصولِ جاہ و منصب نہ ہو۔

(۶)قرآن کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، جلدی جلدی قرآن مکمل کرنے کی غرض سے غلط نہ پڑھا جائے۔

اگر مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ نہیں کیا جائے تو ایسی قرآن خوانی بھی بدعت ہوگی۔

تعزیتی مجالس:۔

واضح رہے کہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد   میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے  اور  میت کے  حق  میں  دعائیہ جملے کہے،   تعزیت کے  الفاظ اور  مضمون متعین نہیں ہے، صبر  اور  تسلی کے لیے جو  الفاظ زیادہ موزوں ہوں  وہ جملے کہے، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے:

"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى"

تاہم اگر کوئی شخص صاحبِ  اَثر و رسوخ ہو،  جس کے متعلقین زیادہ ہوں اور تعزیت کے لیےتین دن کے اندر آنے میں دشواری ہو، نیز تعزیت  کرنے والوں کی کثرت کی بنا پر  میت کے گھر والوں پر بوجھ ہوتا ہو، تو ایسی صورت میں دفع حرج کے لیے تعزیتی جلسہ کروانااور اس میں دعا کرانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس کو لازم نہ سمجھا جاتا ہو اور نہ ہی اس میں منکرات ہوں۔ 

بارہ ربیع الاول کی مجالس:۔ 

واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ بیان کرنا، فضائل وکمالات اور آپ کی رسالت و  تبلیغ کی خدمات کا بیان نہایت ہی خیر وبرکت کا سبب ہے، لیکن اس کے لیے کسی دن اور وقت کو خاص کرنا بدعت ہے، اور کسی خاص دن کی تعیین اور  التزام کے بغیر مذکورہ عمل باعثِ ثواب ہے۔ لہذا مروجہ میلاد منانا درست نہیں، تاہم دن اور مہینے کی تخصیص کے بغیر سیرت رسول ﷺ کی مناسبت سے مجالس منعقد کرنا بہت ہی اچھی بات ہے۔ 

سنن الترمذی  میں ہے:

"عن أبي أمامة، قال: قيل يا رسول الله: أي الدعاء أسمع؟ قال: جوف الليل الآخر، ودبر الصلوات المكتوبات."

 (ابواب الدعوات، ج:5، ص:526، رقم الحدیث:3499، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمہ: ”حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنےعرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! کونسی دعا (اللہ کی بارگاہ میں) زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد۔“

مراقي الفلاح میں ہے:

"(ثم يدعو الإمام لنفسه وللمسلمين) بالأدعية المأثورة الجامعة لقول أبي أمامة: قيل: يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال: "جوف الليل الأخير ودبر الصلوات المكتوبات ولقوله صلى الله عليه و سلم: "والله إني لأحبك أوصيك يا معاذ لاتدعن دبر كل صلاة أن تقول:"اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك "(رافعي أيديهم ) حذاء الصدر وبطونها مما يلي الوجه بخشوع وسكون،ثم يمسحون بها وجوههم فى آخره اي:عند الفراغ."

(باب صفة الصلوة، ص:316، ط:مكتبه رشيديه)

معارف السنن میں ہے:

"قد راج في كثير من البلاد الدعاء بهيئة اجتماعية رافعين ايديهم بعد الصلوات المكتوبة، و لم يثبت ذلك في عهده صلي الله عليه و سلم و بالاخص بالمواظبة، نعم ثبتت ادعية كثيرة بالتواتر بعد المكتوبة و لكنها من غير رفع الايدي و من غير هيئة اجتماعية، نعم ثبت دعاؤه صلي الله عليه و سلم برفع اليدين باجتماع بعد النافلة في واقعتين: احدهما واقعة بيت ام سليم رضي الله عنها حين صلي فيه السبحة و دعا لانس، راه مسلم."

 (باب ما جاء في كراهية ان یخص الامام نفسه بالدعاء،  ج:3، ص: 409، ط: ایچ ایم سعید)

وفيه ايضاً:

"فهذه و ما شاكلها من الروايات في الباب تكاد تكفي حجة لما اعتاده الناس في البلاد من الدعوات الاجتماعية دبر الصلوات... و يقول النووي في شرح المهذب: الدعاء للامام و الماموم و المنفرد مستحب عقب كل الصلوات بلا خلاف ... و بالجملة التزامه كسنة مستمرة دائمة يشكل ان يكون عليه دليل من السنة."

( كتاب الصلوة، باب ما يقول اذا سلم، ج:3، ص: 124، ط: ایچ ايم سعيد)

إستحباب الدعوات عقيب الصلوات  میں ہے:

"اعلم انه لا خلاف بين المذاهب الاربعة في ندب الدعاء سرا للامام و الفذ۔۔۔فاما نصوص المالكية ففي المعيار قال ابن عرفة مضي عمل من يقتدي به في العلم و الدين من الائمة علي الدعاء باثر الذكر الوارد اثر تمام الصلوة و ماسعمت من ينكره الا جاهل غير مقتدي به و رحم الله بعض الاندلسين فانه لما انتهي اليه ذلك الف جزءّ رداّ علي منكره و في نوازل الصلوة منه ايضاّ من الامور التي هي كالمعلوم بالضرورة استمرار عمل الائمة في جميع الاقطار علي الدعاء ادبار الصلوة في مساجد الجماعات و استصحاب الحال حجة و اجتماع الناس عليه في المشارق و المغارب منذ الازمنة المتقادمة من غير نكير الي هذه المدة من الادلة علي جوازه و استحسان الاخذ به و تاكده عند علماء الملة، باختصار."

(جواهر الفقه ج:2، ص:211،  ط: مكتبه دار العلوم كراچی)

و فیہ ایضاً:

"فتحصل من هذا كله ان الدعاء دبر الصلوات مسنون و مشروع في المذاهب الاربعة، لم ينكره الا ناعق مجنون، قد ضل في سبيل هواه و وسوس له الشيطان فاغواه."

( جواهر الفقه ج:2، ص:214، ط: مكتبه دار العلوم کراچی)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"وما ذكرنا من الآثار دليل على أن إخفاء الدعاء أفضل من إظهاره؛ لأن الخفية هي السر".

(سورۃ الانعام، باب النهي عن مجالسة الظالمين، ج:3، ص:45، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

”(سوال)"فرض باجماعت کے بعد دعا آہستہ مانگےیا زور سے، اگر آہستہ کا حکم ہے تو کس قدر، اور زور سے مانگنے کا حکم ہے تو کس قدر، دونوں میں کون سا افضل ہے، حدیث میں نماز کے بعد کس قدر دعائیں مانگنا وارد ہے، لہذا افضل کیا ہے؟ مطلع فرمائیں۔

الجواب: سرّی دعا افضل ہے، نمازیوں کا حرج نہ ہوتا ہو تو کبھی کبھی ذرا آواز سے دعا کرلے تو جائز ہے، ہمیشہ  جہری دعا کی عادت بنانا مکروہ ہے، حدیثوں میں جس طرح دعا کے متعلق روایتیں ہیں کہ آنحضرتﷺ نے یہ دعا پڑھی ایسے ہی یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے رکوع میں " سبحان ربی العظیم"  اور سجدہ میں " سبحان ربی الاعلى" پڑھا، لیکن جس طرح رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کی روایتوں سے جہر ثابت نہیں ہوتاتو دعا کی روایتوں سے بھی جہر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔“

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:10، ص:198، ط:دارالاشاعت)

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال .

(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:530، ط: ایچ ایم سعيد)

کفایت المفتی میں ہے :

"سوال : ہرایک فرض نمازکےبعددعاکتناپڑھےاورنمازوں کےبعدآیت الکرسی پڑھےیانہ پڑھےاورفرض نمازکےبعددعاسےپہلےآیت الکرسی پڑھناثابت ہےیاکہ نہیں ؟

جواب : جن نمازوں کےبعدسنت مؤکدہ ہے،ان کےبعدمختصردعاکرنی چاہیےاورجن کےبعدسنت نہیں،ان کےبعدجتنی دعاکرے،اختیارہے،آیۃ الکرسی دعاسےپہلےپڑھ لینےمیں بھی مضائقہ نہیں۔"

(کتاب الصلوۃ،آٹھواں باب ، ج:3، ص: 336، ط: دارالاشاعت)

شرحِ نووی  میں ہے:

"عن عائشة؛ أن رجلا قال للنبى صلى الله عليه وسلم: إن أمى افتلتت نفسها، وإنى أظنها لو تكلمت تصدقت، فلى أجر أن أتصدق عنها؟ قال: نعم .

وفي هذا الحديث جواز الصدقة عن الميت  واستحبابها  وأن ثوابها يصله وينفعه  وينفع المتصدق أيضا وهذا كله أجمع عليه المسلمون."

(کتاب الوصیة، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت، ج:11، ص:84، ط: دار احیاء التراث العربی)

فتح القدیر میں ہے:

"الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة، لما روي «عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ» جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته.

و ما رواه الدارقطني «أن رجلا سأله - صلى الله عليه وسلم - فقال: كان لي أبوان أبرهما حال حياتهما فكيف لي ببرهما بعد موتهما؟ فقال له - صلى الله عليه وسلم -: إن من البر بعد الموت أن تصلي لهما مع صلاتك، وتصوم لهما مع صيامك».

و ما رواه أيضا عن علي عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من مر على المقابر وقرأ {قل هو الله أحد}إحدى عشرة مرة ثم وهب أجرها للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات».

و«عن أنس أنه سأله - صلى الله عليه وسلم - فقال يا رسول الله إنا نتصدق عن موتانا ونحج عنهم وندعو لهم فهل يصل ذلك إليهم؟ قال: نعم، إنه ليصل إليهم وإنهم ليفرحون به كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أهدي إليه».

وعنه - صلى الله عليه وسلم - «اقرءوا على موتاكم يس».

فهذه الآثار وما قبلها وما في السنة أيضا من نحوها عن كثير قد تركناه لحال الطول يبلغ القدر المشترك بين الكل، وهو أن من جعل شيئا من الصالحات لغيره نفعه الله به مبلغ التواتر، وكذا ما في كتاب الله تعالى من الأمر بالدعاء."

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج:3، ص:142،143، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فمن جملة كلامه قال ‌تاج ‌الشريعة ‌في ‌شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون."

(کتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، مطلب فی الاستئجار علی الطاعات، ج:6، ص:56، ط: ایچ ایم سعید)

وفيه أيضا:

"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره.

وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی الثواب علی المعصیة، ج:2، ص:240، ط: ایچ ایم سعید)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"وقوله في الحد: " تضاهي الشرعية "  يعني أنها تشابه الطريقة الشرعية من غير أن تكون في الحقيقة كذلك، بل هي مضادة لها من أوجه متعددة:

ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة.

ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."

(الباب الاول، تعریف البدعة و بیان معناھا، ج:1، ص:53، ط: دار ابن عفان)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”کسی مسلم کے انتقال پر میت کے متعلقین کی تعزیت کرنا یعنی تلقین صبر وغیرہ کرنا سنت سے ثابت ہے، اگر وہاں خود جا کر تعزیت کا موقع نہ ہو تو خط کے ذریعہ سے بھی سلف صالحین سے تعزیت کرنا منقول ہے۔ جس کے انتقال سے بہت لوگوں کو صدمہ ہو، یا بہت لوگ تعزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہو تو اس کے لئے سہل صورت یہ ہے کہ ایک جلسہ کر کے تعزیت کر دی جائے ، اس میں بڑی جماعت سفر کی زحمت سے بچ جاتی ہے اور میت کے متعلقین پر کثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتا اور مجمع عظیم کی متفقہ دعاء بھی زیادہ مستحق قبول ہے ، بظاہر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ لیکن بہت جگہ اس نے محض رسم کی صورت اختیار کر لی ہے کہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اخبار میں نام آ جائے اور ہماری شہرت ہو جائے ، اگر ہم نے تعزیتی جلسہ نہ کیا تو لوگ ملامت کریں گے وغیرہ وغیرہ ، اگر یہ صورت ہو تو پھر اس کو ترک کرنا چاہیے۔“

(کتاب الجنائز، ج:9، ص:254،255، ط: ادارۃ الفاروق)

کفایت المفتی میں ہے:

”(سوال)بہ تقریب ماہ ربیع الاول مجالس وعظ و  تبلیغ منعقد کرنا جن میں حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طاہرہ اور آپ کے فضائل و مناقب بیان کرنا دینی و دنیوی حیثیت سے باعث خیرو برکت ہے یا نہیں؟

(جواب ۱۵۶) آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ذکر کرنا دینی حیثیت سے موجب صد خیر و برکت ہے اور  دنیوی حیثیت سے حضور ﷺ کے فضائل و مناقب اور کمالات کی تبلیغ و اشاعت بے حد مفید ہے اور انسانیت کی بیش بہا خدمت ہے ، لیکن اس کے لئے ماہ ربیع الاول یا اس مہینے کی کسی تاریخ کی تخصیص نہیں ہے بلکہ سال بھر کے تمام مہینے اور تمام ایام میں یہ خدمت انجام دینا اور اس عمل خیر کو عمل میں لانا یکساں موجب ثواب ہے ۔۔۔۔۔   آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ کی اشاعت و تبلیغ کی غرض سے مجالس سیرت منعقد کرنا جائز اور مستحسن ہے ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ان مجالس کو بدعات مروجہ سے پاک رکھا جائے ۔ اور ان کو عید میلاد یا مجلس مولود کا لقب نہ دیا جائے ۔ اور نہ ماہ ربیع الاول یا بارہویں تاریخ کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے ۔    “

کفایت المفتی میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:

”آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ اور فضائل وکمالات آپ کی رسالت و  تبلیغ کی خدمات کا بیان ہر وقت جائز بلکہ مستحسن ہے۔ لیکن صرف ذکر و لادت شریفہ کے لئے اسی نام سے مجلس میلاد منعقد کرنا سلف صالحین میں نہیں پایا گیا ۔۔۔۔۔ قول راجح یہ ہے کہ حضور ﷺ کے حالات طیبہ بیان کرنے کے لئے بطور مجلس وعظ کے اجتماع ہو، اس میں حضور ﷺ کے کمالات بیان کیے جائیں ، صحیح روایات بیان کی جائیں ۔ اسراف اور دیگر بدعات سے مجلس خالی ہو تو جائز ہے ۔“

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

”عید میلادالنبی کے نام سے کوئی جلسہ کرنا صحیح نہیں۔ ہاں سیرت مقدسہ کی تبلیغ و بیان کے لئے جلسہ کرنے میں مضا ئقہ نہیں۔ اور اس کے لئے کسی خاص تاریخ کی تخصیص نہیں اور فضولیات و بدعات سے احتراز رکھنا لازم ہے۔ “

کفایت المفتی میں ہی ہے:

”علماء نے جلسہ سیرۃ کے نام سے جلسہ کرنے کی اجازت دی ہے جس کا مطلب کوئی عید منانا نہیں اور نہ اس کو میلاد کے مروجہ اعمال ورسوم سے تعلق ہے۔۔ اس کی غرض تو یہ تھی کہ مسلمانوں کے اندر جو یک نماد طریقہ اور مبتدع رسم مجلس مولود منعقد کرنے کی رواج پائی گئی ہے اور اس میں اسراف ، نمود اور بدعات خرافات پھیل گئی ہیں اور مولود خواں جھوٹی اور موضوع روایتیں بیان کرتے ہیں ان کی اس طرح اصلاح ہو جائے کہ سیرۃ نبی کریم ﷺ کے بیان اور حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کی اشاعت و تبلیغ کی غرض سے جلسہ منعقد کیا جائے جو تمام فضولیات اور بدعات و خرافات سے پاک ہو اور اس میں سیرۃ مبارکہ ومقدسہ کے صحیح صحیح حالات بیان کئے جائیں ۔ اور مسلمانوں کو اتباع سنت کی ترغیب دی جائے۔ کوشش کر کے غیر مسلموں کو بھی جلسے میں شریک کیا جائے تاکہ وہ بھی پیغمبر اسلام ارواحنا فداہکے حقیقی اور صحیح اور سچے حالات و کمالات سے واقف ہوں اور تبلیغ کی صحیح صورت پر عمل ہو سکے ۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے بجائے جلسہ سیرۃ کے اس کو مجلس مولود بلکہ ترقی کر کے عید میاد بنالیا اور اس کے ساتھ جلوس اور نمائش کے بہت سے کاموں کا اضافہ کرليا وفقهم الله تعالى للاهتداء بهديه صلى الله عليه وسلم۔

الحاصل اشاعت سیرة مقدسہ کی عرض سے انعقاد جلسہ جائز بلکہ مندوب ہے۔ اور عید میلاد کے نام یا اعتقاد سے جلسہ منعقد کرنا بے اصل ہے۔“

(کتاب العقائد، ج:1، ص:150-154، ط: دار الاشاعت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں