بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

فساد سے بچنے کے لیے قرآن کریم کی جھوٹی قسم کھانا


سوال

فساد کے ڈر سے قرآن پاک کی جھوٹی قسم اٹھا لینا یعنی دوسرا بندہ پوچھے کہ اس قرآن پاک کی قسم ہے تجھے تم بتاؤ یا تم اس قرآن کی قسم اٹھاؤ کہ تم نے یہ کام نہیں کیا تو اس طرح فساد کے ڈر سے قسم کھا لینا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

  جھوٹی قسم  کھاناسخت  ترین گناہِ کبیرہ ہے، حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک وغیرہ کے بعدبڑا اورسنگین گناہ کہاگیا ہے اور  قسم جب قرآن پر ہاتھ  رکھ  کرہوتو اس گناہ  کی سنگینی  اور بھی  بڑھ  جاتی ہے،فساد سے بچنے کے لیے کوئی اور طریقہ  اختیار کیا جاسکتا ہے، مجبوری ہو تو کوئی حیلہ بہانہ کرلیا جائے، لیکن جھوٹی قسم کھانا جائز نہیں ہے، نیز  گناہ کرکے  کامیابی  حاصل نہیں کی جاسکتی، بلکہ حقیقت میں  سچ اور راستی  ہی کے ذریعے  فلاح نصیب ہوتی ہے۔ بہر صورت اگر جھوٹی قسم کھالی ہے تو اس پر ندامت کے ساتھ  صدق دل سے توبہ واستغفار کیا جائے تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی اور گرفت سے بچ جائے اور آئندہ کے لیے اس طرح نہ کرنے کا  پکا عزم کرلیا جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن مقاتل، أخبرنا ‌النضر، أخبرنا ‌شعبة، حدثنا ‌فراس قال: سمعت ‌الشعبي، عن ‌عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.»".

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

ترجمہ :" کبیرہ گناہ یہ ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔"

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله... (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة".

وفي الرد:(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا... و معلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى... (قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي...  (قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه".

(‌‌كتاب الأيمان، 3/ 705، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510102267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں