بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کی آخری رکعتوں میں صرف قیام کرنا


سوال

ہمارے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شدید مجبوری ہو مثلاً ٹرین چھوٹ جانے کا ڈر ہوتو نماز کے صرف فرائض اور واجبات ادا کرنا کافی ہوں گے ،سنت ارکان ادا کرنےکی ضرورت نہیں،یعنی فرض نماز کے آخری رکعتوں میں تھوڑا سا قیام کیا جاۓ، قراءت کی ضرورت نہیں، کیوں کہ آخری دو رکعتوں میں قراءت فرض یا واجب نہیں۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ چار رکعت  والی  فرض نماز کی آخری دو رکعت، اور  مغرب کی نماز کی تیسری رکعت میں  سورۂ فاتحہ پڑھنا مستحب ہے،لہذا صورتِ  مسئولہ میں   اگر کوئی شدید مجبوری ہو مثلاً ٹرین چھوٹ جانے کا ڈر ہو اور فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت یا مغرب کی آخری رکعت میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، یا کچھ  بھی نہیں پڑھا، بلکہ اتنی دیر خاموش رہا کہ تین تسبیحات کے بقدر قیام کر لیا تو نماز  درست ہو  جائے گی، اور سجدۂ سہو بھی لازم نہ ہوگا،  البتہ یہ یاد رہے کہ   سورہ فاتحہ چھوڑنے کی عادت بنانامکروہ ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(واكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به (قوله ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إليها سورة لا بأس به لأن القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب فكان الضم خلاف الأولى وذلك لا ينافي المشروعية، والإباحة بمعنى عدم الإثم في الفعل والترك كما قدمناه في أوائل بحث الواجبات."

(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج: 1، صفحہ: 511، ط: ایچ، ایم، سعید)

حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:

"وتسن قراءة الفاتحة فيما بعد الأوليين" يشمل الثلاثي والرباعي."

(کتاب الصلاۃ، فصل في بيان سننها، ص: 270/ ط: دار الكتب العلمية)

المحیط البرہانی میں ہے:

"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي «النوازل»: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها".

(کتاب الصلوۃ، الفصل الحادی والعشرون فی  التطوع قبل الفرض، ج:1، ص:446،  ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں