بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فدیہ ۔ فطرانہ میں گندم کا مارکیٹ ریٹ ( بازاری نرخ ) مختلف ہونے کی صورت میں شرعی حکم


سوال

جب فدیہ کی رقم پونے دو سیر گندم جو 150 روپے بنتی ہے تو 240 روپے کیوں بتاتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ   فدیہ/ صدقۃ الفطر  گندم  کے اعتبار سے اصلاً "نصف صاع" ادا کرنا ضروری ہے،مروجہ وزن کے اعتبار سےنصف صاع کم ازکم پونے دو کلواور احتیاطاً  دو کلو بنتا ہے، جس کے مطابق فدیہ میں اوسط درجہ کی دو کلو گندم یا اُس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔ اب چوں کہ مختلف علاقوں اور شہروں میں گندم کا مارکیٹ ریٹ مختلف ہوتا ہے اور گندم کی کوالٹی بھی ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی، لہذا کسی جگہ فدیہ/صدقہ فطر میں گندم کی رقم 240 بتائی گئی ہے عین ممکن وہاں گندم کا  مارکیٹ ریٹ اتنا ہی ہو،بہرکیف  اِس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ  سائل جس شہر اورعلاقے میں  مقیم ہے وہاں کی بازاری قیمت کے اعتبار سےاوسط درجہ کی دو کلو گندم یا اُس کی قیمت فدیہ میں ادا کردے۔  ”درالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن“ کی جانب سے کراچی اور اُس کے مضافات کے لیے امسال گندم کے اعتبار سے فدیہ کی رقم"180" روپے مقرر کی گئی ہے، مزید تفصیل منسلکہ لنک پر ملاحظہ ہو:

نصاب صدقۃ الفطر/فدیہ 2025ء

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

”صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع گندم اور ایک صاع جو ہے  ، صاع بھی عرب میں مختلف تھے اور سیر بھی مختلف تھے، نیز جو ، رتی   میں اختلاف تھا، ان سب کو دیکھتے ہوئے جو حساب لگایا گیا ، تو اسی کے سیر سے یعنی اسی تولہ کا  سیر مانا جائے، تو نصف صاع ڈیڑھ سیر کا ہوا، پھر احتیاط کے طور پر پونے دو سیر فطرہ تجویز کیا گیا، ایک صاع کا وزن اس سے دو گنا ہے، سیر بعض  مقامات پر نوے کا ہے، اور  بعض جگہ  سو کا،  بعض جگہ زائد کا ہوتا ہے، انگریز کے دور میں سیر 80 کا بنایا گیا۔

فتاوی رشیدیہ میں صاع کا وزن کا طریقہ مذکور ہے ، اب موجودہ وقت میں کلورائج ہے، اس کے اعتبار سے نصف صاع کا وزن ایک کلو 644 گرام ہے، اتنی مقدار دینے سے واجب ادا ہو جائے گا ، کچھ زائد دے دیا جائے تو بہتر ہی بہتر ہے۔ “

(کتاب الزکاۃ، باب  صدقۃ الفطر و مصارفھا،  ج:22، ص:346، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی شامی میں ہے:

”وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه.“

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:355، ط:سعيد)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144609102193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں