میں ایک ایسی بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوں جس میں ساٹھ سے زائد فلیٹ ہیں، ہر فلور پر گیارہ فلیٹ ہیں، لیکن ان گیارہ فلیٹوں میں سے سات فلیٹ تین کمرے اور ایک صحن پر مشتمل ہیں، دو گھر ایسےہیں جو دو کمرے اور ایک صحن پر مشتمل ہیں اور دو گھر ایک کمرے اور ایک صحن پر مشتمل ہے، مختصر یہ کہ ان تمام فلیٹوں کے اسکوائر فٹ برابر نہیں، لیکن یہاں ظلم یہ ہے کہ جن کے تین کمرے اور ایک صحن کا گھر ہے وہ بھی وہی مینٹیننس کی قیمت ادا کرتے ہیں جو ایک گھر اور ایک صحن کے گھر والے ادا کرتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس دیگر عمارتوں میں ان کے اسکوائر فٹ کی کمی زیادتی کی بناء پر مینٹیننس تقسیم کیا جاتاہے، براہ کرم ہماری بلڈنگ کی اس ظالمانہ مینٹینینس کی تقسیم پر رہنمائی فرمائیں، کہ آیا یہ درست ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ عام طور پر بڑی عمارتوں میں خارجی سہولیات فراہم کرنے کے عوض مکینوں سے ماہانہ کچھ رقم وُصول کی جاتی ہے، اس رقم کو مینٹیننس کہا جاتا ہے اور اس رقم سے مکینوں کو مختلف سہولیات دی جاتی ہیں، عمارت کے داخلی، خارجی راستوں اور سیڑھیوں اور لفٹ پر استعمال ہونے والی بجلی کا بل ادا کیا جاتا ہے، صفائی کا نظم بنایا جاتا ہے،چوکیدار کی تنخواہ دی جاتی ہے،اور اس کے علاوہ لازمی امور کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں، اب مذکورہ سہولیات سے چوں کہ ہر رہائشی برابر کا مستفید ہوتا ہے، اس لیے ہر رہائشی کے ذمہ مینٹیننس کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بلڈنگ کا یہی طریقہ کار ہو کہ جتنا تین کمرے کے گھر والوں سےمینٹیننس لیا جاتا ہے اتنا ہی دیگر گھر(دو کمرے یا ایک کمرے)والوں سے لیا جاتا ہو تو ایسی صورت میں ایک کمرے کے گھر والے کا تین کمرے کے گھر والے کے برابر مینٹیننس ادا کرنا ظلم نہیں کہلائے گا، کیوں کہ فلیٹ میں رہنے والا ہر شخص ان سہولیات سے برابر کا نفع حاصل کرتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"مطلب في قولهم الغرم بالغنم (قوله: لأن الغرم بالغنم) تعليل لقوله كجنايته. قال في المصباح: والغنم بالغرم أي مقابل به فكما أن المالك يختص بالغنم ولا يشاركه فيه أحد فكذلك يتحمل الغرم ولا يتحمل معه أحد، وهذا معنى قولهم: الغرم مجبور بالغنم."
(كتاب اللقيط، مطلب في قولهم الغرم بالغنم، ج :4، ص:270، ط:دار الفکر)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(المادة 85) :
الخراج بالضمان هذه المادة هي نفس الحديث الشريف «الخراج بالضمان» وهي المادة 87 (الغرم بالغنم) :
والمادة 88 كلها بمعنى واحد وإن اختلفت الألفاظ فكان من الواجب الاكتفاء بواحدة منها.
الخراج: هو الذي يخرج من ملك الإنسان أي ما ينتج منه من النتاج وما يغل من الغلات كلبن الحيوان ونتائجه، وبدل إجارة العقار، وغلال الأرضين وما إليها من الأشياء. ويقصد بالضمان المؤنة كالإنفاق على الحيوان ومصاريف العمارة للعقار ويفهم منها أنه من يضمن شيئا لو تلف ينتفع به في مقابلة الضمان مثلا لو رد المشتري حيوانا بخيار العيب وكان قد استعمله مدة لا تلزمه أجرته؛ لأنه لو كان قد تلف في يده قبل الرد لكان من ماله.
يعني أن من يضمن شيئا إذا تلف يكون نفع ذلك الشيء له في مقابلة ضمانه حال التلف ومنه أخذ قولهم الغرم بالغنم."
(المقالۃ الثانیة، المادة:85، ج:1، ص:88، ط:دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100802
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن