ہم پراپرٹی کا کام کرتے ہیں، فلیٹ بناتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ ہم نے ایک فلیٹ جنوری ۲۰۱۹ء میں 3 کروڑ میں بیچا، لیکن اس کی صورت باہمی رضامندی سے یہ طے پائی کہ خریدار چار سال کے عرصے میں قسطوں میں یہ رقم ہمیں ادا کریں گے، لیکن ہم اسے شروع ہی سے قبضہ دے دیں گے، اور وہ ہمیں شروع سے اس فلیٹ کا کرایہ دے گا۔ جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ جنوری ۲۰۱۹ ء سے دسمبر ۲۰۱۹ ء تک ہر ماہ 40 ہزار روپے کرایہ کی مد میں دے گا، اور اس کے بعد جنوری ۲۰۲۰ء سے لے کر جب تک پوری پیمنٹ نہیں کر دیتا اس وقت تک ہر ماہ 25 ہزار روپے کرایہ کی مد میں دے گا۔ سوال یہ ہے کہ: کیا ہمارا یہ معاملہ اور اس طرح کا سودا شرعاً درست ہے؟ اگر نہیں تو اب تک کے جو پیسے لیے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
جب آپ نے یہ فلیٹ بنا کر اس کو بیچ دیا اور قبضہ دے دیا تو یہ اس کی ملکیت ہے،آپ کی نہیں ، لہذا اس فلیٹ کا کرایہ لینا جائز نہیں۔ البتہ اب تک جو رقم لی ہے آپ اس رقم کو فلیٹ کی قیمت کی اقساط کی وصولی کے طور پر کاٹ سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201175
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن