بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فلیٹوں کے درمیان نماز کے لیے بنائی ہوئی جگہ مسجد کے حکم میں نہیں


سوال

 مجھے مسجد کی تعمیر کا شرعی حکم معلوم کر نا ہے ، آج کل اکثر جگہوں پر فلیٹوں کے درمیان جو مسجدیں تعمیر ہوگئی ہیں ،  ان کا شرعی حکم کیا ہے ؟ کیوں کہ اکثر فلیٹوں کے گراؤنڈ فلور پر دکانیں ہو تی ہیں اور پہلی منزل کے کچھ حصے پر مسجد ہوتی ہے ،  اور بقیہ اوپر کی منزلوں پر رہائشی فلیٹ ہوتے ہیں، بلکہ بعض جگہ اونچی عمارت ہو تو ایک مسجد دوسرے فلور پر اور دوسری مسجد آٹھویں یا دسویں فلور پر ہوتی ہے ،  اور ان فلیٹوں کی نہ چھت اپنی ہوتی ہے نہ زمین اپنی ہوتی ہے، اسی طرح اللّٰہ کے گھر مسجد کی بھی نہ چھت اپنی ہوتی ہے نہ زمین اپنی ہوتی ہے،  اور ظاہر ہے کہ لوگ اپنے رہاشی فلیٹ میں اپنی ضرورت کے تمام کام کرتے ہیں،  مثلاً حاجت کہ لیے باتھ روم کا استعمال اور نہانا دھونا وغیرہ کرتے ہیں،  اور اپنے ازدواجی تعلقات قائم کرتے ہیں،اور اپنے گھر میں فلموں،  ڈرامے، ناچ گانا اور انٹرنیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں، غرض یہ کہ ہر قسم کی خرافات کرتے ہیں،  کیوں کہ وہ اپنے گھر میں کچھ بھی کریں اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے،  یہاں تک کہ جب مسجد میں نماز ادا کی جارہی ہو تب بھی اوپر کی منزل کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں یہ تمام خرافات کررہے ہوتے ہیں،  کیا اس طرح مسجد کا تقدس پامال نہیں ہوتا ہوگا ؟ جب کہ میں نے آپ کے ایک فتویٰ میں پڑھا تھا کہ شرعی مسجد وہ ہوتی جو زمین سے لے کر آسمان تک مسجد کیلئے وقف ہو یعنی اس کی زمین کے نیچے اور چھت کے اوپر کسی اور کی ملکیت نہ ہو ،  اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں کیا فلیٹوں کے درمیان مسجد کی تعمیر کرنا جائز ہے؟ اور اس طرح کی مسجد جو فلیٹوں کے درمیان بنی ہوئی ہو اس میں نماز پڑھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے؟ مہربانی فرما کر قرآن وسنت کی روشنی میں مسجد تعمیر کرنے کا شرعی حکم  بتادیں۔

جواب

مسجد  اس  جگہ کو   کہا جاتا ہے  جس کو   خالص اللہ  تعالی  کی  رضا  کی  خاطر وقف کردیا گیا، اس  میں بندوں کا کوئی حق شامل نہ ہو ، اور  جس کے نیچے سے لے کر اوپر تک کا حصہ مسجد ہی کے لیے ہو، کسی دوسرے کام کے لیے نہ ہو،نیز  کسی  جگہ پر مسجد کے احکام اس وقت جاری ہوں گے جب مالکِ زمین وقف کرکے اس پر نماز پڑھنے کی اجازت  دے دے اوراس کا راستہ الگ کردے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بڑی بڑی عمارتوں میں  فلیٹوں کے درمیان جو جگہیں  نماز  کے لیے  خاص  کی جاتی ہیں ، اور عمومًا ان  کے اوپر  یا نیچے گھر یا دکانیں وغیرہ ہوا کرتی ہیں، اس طرح کی جگہوں کو نماز کے لیے متعین کرنا  اور نماز باجماعت ادا کرناجائز ہے،  تاہم   ایسی جگہوں  میں چوں کہ بندوں کا حق متعلق ہوتا ہے؛ لہذا یہ  جگہیں مستقل مسجدِ شرعی نہیں  ہیں، ان پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں  گے، یعنی ان میں نماز پڑھنے کی صورت میں  مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب نہیں  ملے گا ،    ان میں اعتکاف کرنا   درست نہیں،   البتہ اگر قریب میں کوئی مستقل مسجد نہیں  ہو تو  ان میں باجماعت نماز پڑھنا جائز ہے  اور جماعت کی نماز کا ثواب بھی ملے گا، نیز  اس جگہ  کو مالک بیچ بھی سکتا ہے، جب یہ شرعی مسجد نہیں ہے تو ان کے اوپر نیچے فلیٹوں میں سوال میں مذکور افعال کرنے پر مسجد کی بے حرمتی بھی لازم نہیں ہوگی    ۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله ‌ومن ‌جعل ‌مسجدا ‌تحته ‌سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب.  وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]."

(كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام، ج:5، ص:271، ط: دار الكتاب الاسلامي)

 فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والمصلى) شمل مصلى الجنازة ومصلى العيد قال بعضهم: يكون مسجدا حتى إذا مات لا يورث عنه وقال بعضهم: هذا في مصلى الجنازة، أما مصلى العيد لا يكون مسجدا مطلقا، وإنما يعطى له حكم المسجد في صحة الاقتداء بالإمام، وإن كان منفصلا عن الصفوف وفيما سوى ذلك فليس له حكم المسجد، وقال بعضهم: يكون مسجدا حال أداء الصلاة لا غير وهو والجبانة سواء، ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ. خانية وإسعاف والظاهر ترجيح الأول؛ لأنه في الخانية يقدم الأشهر... وفي ‌القهستاني ولا بد من إفرازه أي تمييزه عن ملكه من جميع الوجوه فلو كان العلو مسجدا والسفل حوانيت أو بالعكس لا يزول ملكه لتعلق حق العبد به كما في الكافي."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:356، ط: سعيد)

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحبؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

”جواب: کسی جگہ کے مسجد بننے کے لئے امام ابو یوسف کے نزدیک اس جگہ کے مالک کا صرف اتنا  کہنا کافی ہے کہ میں نے یہ جگہ مسجد بنادی،  البتہ امام ابو حنیفہ امام محمد  رحمہما اللہ کے نزدیک اس کے کہنے کے ساتھ کم از کم ایک نماز با جماعت پڑھنا بھی مسجد بننے کے لئے ضروری ہے۔۔۔اس کے علاوہ مسجد ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جگہ مشاع نہ ہو ۔ بلکہ اپنی ملکیت سے اس کو بالکل جدا کر دے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک جدا راستہ کی شرط بھی ہے۔ تو صورت مسئولہ میں جو کمرہ مسجد کے لئے وقف کیا جاتا ہے یہ کمرہ اس وقت مسجد بنے گا جب کہ واقف اس کو مفرزا اور جُدا کر دے کہ اس کے ساتھ اس کی ملکیت کا حق بالکل متعلق نہ ہو اور راستہ بھی جدا ہو۔ اور اگر کسی دو منزلہ مکان میں بالائی منزل کا صرف ایک کمرہ مسجد بنادے اور اس کا نچلا حصہ وقف نہ کرے تو یہ کمرہ اس کی ملکیت سے خارج ہو کر مسجد نہ ہوگا۔ اسی طرح صرف تحتانی منزل کا کمرہ مسجد بنادینا اور اوپر کا حصہ اپنی ملکیت میں رکھنا یہ بھی درست نہیں۔۔۔۔حاصل یہ ہے کہ چونکہ مساجد اللہ کے گھر ہیں اس لئے مساجد کے لئے ضروری ہے کہ ان پر بندوں کے ہر قسم کے مالکانہ حقوق بالکل منقطع ہو جائیں اور جب تک کسی جگہ کے ساتھ کسی بندہ کا حق متعلق رہے گا وہ جگہ مسجد نہیں ہو سکتی۔“

(فتاوی بینات، ج:3، ص:606، ط: مکتبہ بینات)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

”مسجد اس کو کہتے ہیں جس کو زمین کے مالک نے مسجد کے لئے وقف کر کے عام لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہو، اور اگر کسی مل یا کمپنی یا دفتر نے لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہو اور اس کے لیے مسجد کی شکل بھی بنادی ہو، تو یہ شرعاً مسجد نہیں، بلکہ نماز گاہ ہے، اس پر مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔  ۔۔بلڈنگ میں جو کمرہ نماز کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہو ، اس کا حکم مسجد کا نہیں ، نہ اس میں مسجد کا ثواب ملے گا۔ “

(مسجد کے مسائل، ج:3، ص:282، ط: لدھیانوی)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین در یں مسئلہ کہ ایک شخص کی دکانیں ملکیہ ہیں۔ ان کے اوپر دوسری منزل پر مسجد بنادی ہے۔ کیا وہ مسجد حکم مسجد کا رکھتی ہےیا نہیں؟ یعنی ثواب مسجد کا ملے گا نماز وہاں پڑھنے والے کو؟  اور جنبی وہاں جاسکتا ہے یا نہیں؟

الجواب باسمہ تعالیٰ:"ومن جعل مسجدا تحته سرداب او فوقه بیت و جعل با به الى الطريق و عزله فله ان يبيعه و ان مات يورث عنه لانه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقابه ولو كان السرداب المصالح المسجد جاز" ( ہدایہ شریف)۔ جو شخص مسجد بنائے اور نیچے مسجد کے تہ خانہ یا اوپر اس کے مکان ہے اور کر دیا ہے دروازہ مسجد کا طرف راستہ کے اور علیحدہ کیا ہے اپنی ملک سے، اس کے لیے جائز ہے کہ اس مسجد کو بیچ دے ( کیونکہ وہ شرعاً مسجدنہیں، ظاہر روایت میں) اگر فوت ہوگا تو وہ مسجد اس کے وارثوں کا حق ہے تقسیم کریں گے، اس لیے کہ وہ مسجد خالص واسطے اللہ تعالیٰ کے نہیں بندے کا حق اس میں باقی ہے، ہاں اگر تہ خانہ مسجد کے متعلق اور مسجد کے فائدہ کے لیے ہے تو پھر جائز ہے،  اس بالا خانہ میں اگر چہ نماز ہو جائے گی،  لیکن ثو اب جو مسجد میں نماز پڑھنے کا حاصل ہوتا ہے اس کا مستحق نہ ہوگا۔ جب وہ مسجد نہیں تو جنبی اور حائضہ کا وہاں جانا ممنوع نہ ہوگا۔یہ جواب صحیح ہے کہ مسجد وقف نہیں ہے،  لیکن اس میں نماز با جماعت ہو سکتی ہے،  اور جماعت کا ثواب بھی ملے گا، اذان بھی دی جائے اور تراویح وغیرہ بھی پڑھی جائے ۔“

(کتاب المساجد، دکانوں کے اور پرتعمیر شدہ مسجد کا حکم، ج:1، ص:726، ط:جمعیت پبلیکشنز)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

”سوال: ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے جو چند  دکانوں کے اوپر واقع ہے اور باقاعدہ اس میں اذان و جماعت بھی ہوتی ہے،  جب کہ یہ دوکانیں مالک کی ملک میں ہیں،  کیا ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے اور اس کو مسجد شرعی کا درجہ حاصل ہوگا یا نہیں ؟

الجواب:- دوکانوں کے اوپر مالک کی اجازت سے مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں، اس میں نماز بلا کراہت جائز ہے ، اگر مالک کی اجازت کے بغیر نہ مسجد بنائی گئی ہو تو اس میں نماز مکروہ ہے ، البتہ یہ مسجد شرعی مسجد کے حکم میں نہیں،  بلکہ عرفی مسجد کے حکم میں ہے، شرعی مسجد کاحکم اس پر اُس وقت ہوگا جب دوکانوں سے مالک کی ملکیت کو ختم کر کے مسجد کی ملکیت میں دیدی جائیں۔“

(کتاب الصلاۃ، ج:5،ص:114، ط: دار العلوم حقانیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603102077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں