بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جنگلات اور معدنیات کو ٹھیکے پر دینے کا حکم


سوال

ضلع چترال میں جنگلات اور معدنیات پائے جاتے ہیں، علاقے کے لوگ جنگلات کی لکڑیاں (ملبہ اور ٹمبر کی صورت میں) اور معدنیات ٹھیکے داروں کے ہاتھ یاٹینڈر کے ذریعے فروخت کرتے ہیں، ٹھیکے داروں سے معاہدہ کے مطابق جو رقم بنتی ہے، وہ 40 فیصد حکومت کی اور باقی 60 فیصد لوگوں میں تقسیم ہوتی ہے، علاقے میں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، اصل باشندے اور زرخرید یعنی وہ لوگ جو باہر سے آکر یہاں زمینیں خرید کر رہ رہے ہیں۔

وضاحت: یعنی قدرتی جنگلات جو کسی کی ملکیت نہیں ہے، لوگ ان سے اپنی گھریلو ضروریات کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور کبھی اس علاقے کے لوگ مل کر ان جنگلات کو ٹھیکے داراوں کو بیچ دیتے ہیں، اور جو پیسہ ان کو ملتا ہے وہ ان میں عددِ نفوس کے اعتبار سے تقسیم ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا رائلٹی کے ملنے والے 60 فیصد کے حقدار اصل باشندوں کی طرح زرخرید بھی ہیں یا نہیں؟

نوٹ: رائلٹی کے متعلق پاکستان کا قانون یہ ہے کہ زرخرید جس کمپارٹ (کمپارٹ جنگلات کے رقبے کے اعتبار سے تقسیم کا نام ہے) کے قریب رہتا ہے، اسی کمپارٹ کی رائلٹی کا حقدار ہے، دیگر کمپارٹوں میں نہیں، مثلاً کمپارٹ 20 ہیں، زرخرید صرف 3 کمپارٹ کے قریب رہتا ہے، تو تین کمپارٹوں میں رائلٹی کا حقدار ہوگا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ جنگلات حکومت کی ملکیت ہیں، اور حکومت نے علاقے کے لوگوں کو اس بات کا اختیار دیا ہوا ہے کہ اگر وہ ان جنگلات سے بذات خود فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھا سکتے ہیں، یا علاقے کے لوگ ان جنگلات کو آگے ٹھیکے پر دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں ٹھیکے داروں کے ساتھ جو رقم طے ہوگی اس کا 40 فیصد حکومت لے گی اور 60 فیصد علاقے کے افراد میں عددِ نفوس کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا، خواہ وہ اس علاقے کے اصل باشندے ہوں یا باہر سے آکر یہاں زمین خرید کر رہ رہے ہیں، دونوں فریقوں کا اس 60 فیصد میں حکومت کے قوانین کے مطابق حق ہوگا، اور یہی اس کا شرعی حکم ہے۔

غرض کہ حکومت کے قوانین اور ضوابط کے مطابق عمل کرنا لازم ہوگا۔

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"الإرصاد في اللغة: الإعداد. يقال: أرصد له الأمر: أعده. وهو عند الفقهاء: تخصيص الإمام غلة بعض أراضي بيت المال لبعض مصارفه...

الإرصاد مشروع باتفاق العلماء، إما لاعتباره وقفا (فتجري عليه أحكامه)، وإما لكونه يؤمن مصلحة عامة للمسلمين بطريق مشروع؛ لأن المرصد (بفتح الصاد) هو مال بيت مال المسلمين، وصل إلى المسلمين من غير قتال، ومصرفه كل ما تقوم به مصالح المسلمين، والمرصد عليهم من العلماء والقضاة ونحوهم هم عملة المسلمين الذين تقوم بهم مصالح المسلمين، فهم مصرف من مصارف بيت المال. وتأمين مصالح المسلمين واجب على الإمام، فإذا كانت هذه المصالح لا يمكن تأمينها إلا بالإرصاد، كان الإرصاد واجبا؛ لأن ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب، وقد سئل الشيخ علي العقدي الحنفي رحمه الله تعالى عن مشروعية الإرصاد فأجاب:

" لا شك في جوازها لما فيه من إيصال الحق إلى مستحقيه فيكون جائزا، بل واجبا لما قلنا، وهذا مجمع عليه."

(الإرصاد، ج: 3، ص: 107 - 108، ط: دار السلاسل الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101548

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں