میرا سوال یہ ہے کہ فاریکس ٹریڈنگ جائز ہے یعنی حلال ہے کیوں کہ اس میں ہم لیوریج (یعنی سرمایہ سے زیادہ کاروبار میں اضافی پیسے لگانے پر سود چارج کرنا) نہیں لیتے، لیوریج لینا حرام ہے اور باہر ممالک کے مدرسوں میں باقاعدہ سکھایا جاتا ہے، اور کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے کیوں اس میں آپ کے پاس چیز نہیں آتی، سو اس طرح تو بینک میں پیسے رکھوانا اور آن لائن کچھ لینا بھی جائز نہ ہو کیوں کہ پیسے ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں، اسی طرح ٹریڈنگ میں ڈالر ہمارے اکاؤنٹ میں ہوتے ہیں
فاریکس(forex)کےکاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی، کپاس، گندم، گیس، خام تیل، جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے،ہمارے علم کے مطابق ’’فاریکس ٹریڈنگ‘‘ کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں وہ شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم کی موجودگی کی وجہ سے ناجائز ہیں۔’’فاریکس ٹریڈنگ‘‘ میں اگر سونا ، چاندی اور کرنسی کا کاروبار کیا جائے تو چوں کہ شریعت نے سونا ،چاندی اور کرنسی کے تبادلے میں چند شرائط عائد کی ہیں، جن میں سے ایک اہم شرط اس معاملے کے دونوں عوضوں پر قبضے کا پایا جانا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک حقیقی معاملہ ہو جس میں معاملہ کنندگان کو دونوں عوض اپنی جگہ مطلوب ہوں ۔ فاریکس کے آن لائن کاروبار میں مختلف کرنسیوں کے تبادلے میں عموماً نہ تو کرنسیوں کی حقیقی خرید وفروخت ہی مقصد ہوتی ہے، (بلکہ قیمتوں کے گھٹنے بڑھنے پر ہونے والا فائدہ مطلوب ہوتا ہے، جس میں آخر میں فرق برابر کیا جاتا ہے، گو بعض صورتوں میں مطالبے پر سونا، چاندی حوالہ بھی کیا جاتاہو)، اور نہ ہی قبضہ اپنی شرائط کے ساتھ پایا جاتا ہے، اس لیے یہ کاروبار جائز نہیں ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں دیگر شرعی خرابیاں پائی جانے کی وجہ فاریکس ٹریڈنگ کا کاروبار ناجائز ہے اگرچہ اس میں لیوریج کے نام پر سود نہ لیا جاتا ہو، نیز بینک میں پیسے رکھوانا یا سونا، چاندی یا کرنسی کے علاوہ آن لائن کچھ خریدنا دونوں عوض کا ہاتھ در ہاتھ قبضہ ضروری نہیں ہے اگر اس میں کوئی اور شرعی خرابی نہیں پائی جارہی ہو تو بینک میں پیسے رکھوانا اور آن لائن خریداری کرنا جائز ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الشرائط (فمنها) قبض البدلين قبل الافتراق لقوله: - عليه الصلاة والسلام - في الحديث المشهور «والذهب بالذهب مثلا بمثل يدا بيد والفضة بالفضة مثلا بمثل يدا بيد» .
وروي عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز» .
وروي عن عبد الله ابن سيدنا عمر عن أبيه - رضي الله عنهما - أنه قال: لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تبيعوا الذهب بالورق أحدهما غائب والآخر ناجز، وإن استنظرك حتى يلج بيته فلا تنظره إني أخاف عليكم الرماء أي: الربا، فدلت هذه النصوص على اشتراط قبض البدلين قبل الافتراق."
(کتاب البیوع، فصل فی شرائط الصرف، ج:5، ص:215، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء."
(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:5، ص:258، 259، ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"والرابع في شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان، الثاني أن يكون باتا لا خيار فيه فإن شرط فيه خيار وأبطله صاحبه قبل التفرق صح وبعده لا، وأما خيار العيب فثابت فيه، وأما خيار الرؤية فثابت في العين دون الدين، وإذا رده بعيب انفسخ العقد سواء رده في المجلس أو بعده وإن كان دينا فردها في المجلس لم ينفسخ، فإذا رد بدله بقي الصرف وإن رد بعد الافتراق بطل وتمامه في البدائع، الثالث أن لا يكون بدل الصرف مؤجلا فإن أبطل صاحب الأجل الأجل قبل التفرق ونقد ما عليه ثم افترقا عن قبض من الجانبين انقلب جائزا وبعد التفرق لا، الرابع التساوي في الوزن إن كان المعقود عليه من جنس واحد فإن تبايعا ذهبا بذهب أو فضة بفضة مجازفة لم يجز فإن علما التساوي في المجلس وتفرقا عن قبض صح، وكذا لو اقتسما الجنس مجازفة لم يجز إلا إذا علم التساوي في المجلس لأن القسمة كالبيع."
(کتاب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دار الکتاب الإسلامی)
الآثار لابی یوسف میں ہے:
"عن عتاب بن أسيد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه أميرا على مكة، وقال: " إني أبعثك إلى أهل الله، فانههم عن أربع خصال: عن ربح ما لم يضمن، وبيع ما لم يقبض، وعن شرطين في بيع وسلف."
(فی البیوع والسلف، ص:181، ط:دار الکتب العلمية)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال - رحمه الله - (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله - عليه الصلاة والسلام - «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."
(کتاب البیوع، فصل بیع العقار قبل قبضه، ج:4، ص:80، ط:المطبعة الکبری الأمیرية)
مجمع الانہر میں ہے:
"(لا يصح بيع المنقول قبل قبضه) «لنهيه - عليه الصلاة والسلام - عن بيع ما لم يقبض» ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك."
(کتاب البیوع، فصل فی بیان البیع قبل قبض المبیع، ج:2، ص:70، ط:دار احیاء التراث العربی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101122
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن