بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

صرف فارم پر دستخط سے نکاح


سوال

جب میری شادی ہو رہی تھی میرے ابو نے مجھ  سے دستخط لیے اور میری بیوی سے اس کے ابو نے انگوٹھا لگوا یا، یہ سب کچھ ہونے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آپ کا نکاح ہوگیا، ہم سے پوچھا نہیں گیا اور گواہ کا بھی پتا نہیں، ہماری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں الحمدللہ ، میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہمیں نکاح کی تجدید کرنی چاہیے یا نہیں؟  یا  نکاح نامہ پر دستخط اور انگوٹھے لگانے سے ہمارا نکاح ہوچکا ؟ نکاح کے خطبہ کے بارے میں نہیں معلوم کہ پڑھا تھا یا نہیں!

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو اور آپ کی بیوی کو یہ علم تھا کہ یہ نکاح کی تقریب ہے یا نکاح کے مقصد کے لیے آپ سے دستخط لیے جا رہے ہیں اور آپ نے اس وجہ سے اس پر دستخط کیے، جیسا کہ اتنا علم اور سمجھ  ہر سمجھ دار  کو ہوتی ہے، اگرچہ آپ کو گوا ہوں کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ  کون ہیں،  نیز یہ بھی یاد نہیں کہ خطبہ ہوا تھا یا نہیں،تو بھی اس صورت میں یہ نکاح منعقد ہو گیا تھا ۔

بظاہر جن قوموں میں یہ عرف ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے والدین یا سرپرست ان کی طرف سے ایجاب و قبول کرتے ہیں تو وہ فارم پر دستخط کے علاوہ اجمالی طور پر بتاکر وکالت حاصل کرلیتے ہیں،  اور پھر مجلسِ نکاح میں سرپرست ایجاب و قبول کرتے ہیں اور خطبہ بھی ہوتاہے، البتہ لڑکا لڑکی کو اس کا علم نہیں ہوتا، اور بسا اوقات ایجاب اور قبول کے الفاظ یعنی  آپ کو نکاح قبول ہے ،  اس قسم کے الفاظ کی ادائیگی بھی کرائی جاتی ہے، لہذا اگر یہ شرائط موجود تھیں تو  پھر آپ کا  نکاح  مجلسِ نکاح سے ہی منعقد ہوگیا۔

البتہ اگر صرف فارم پر دستخط کیے ہوں اور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ فارم کس چیز کا ہے اور نہ ہی آپ سے  ایجاب اور قبول کے الفاظ کہلوائے گئے  تھے یعنی کہ یہ لڑکی آپ کو نکاح میں قبول ہے یا نہیں، پوچھا گیا تھا اور نہ ہی آپ نے یہ کہا تھا کہ یہ لڑکی مجھے نکاح میں قبول ہے تو  آپ کے سرپرستوں کے ایجاب و قبول سے   نکاح منعقد نہیں ہوا تھا، البتہ یہ فضولی کا کرایا گیا نکاح تھا، اس کے بعد آپ میاں بیوی نے عملًا اسے قبول کرلیا (مہر کی ادائیگی یا زن و شو کے تعلق کے ذریعے) تو یہ نکاح نافذ ہوگیا۔

بہرحال اب تجدیدِ نکاح کی حاجت نہیں ہے۔ تاہم اولیاء کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا اس طرح نکاح نہ کیا کریں، بلکہ لڑکا اور لڑکی کو بتاکر ان کی دلی رضامندی جان کر باقاعدہ شرعی احکام (سنن و آداب)  کی رعایت  کے ساتھ  نکاح کروائیں۔

در مختار میں ہے:

"(وينعقد) ... (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر".

(كتاب النكاح، ج: 3، ص: 9، ط: سعيد)

ہدایہ میں ہے:

"(ولاينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أرو رجل وامرأتين ..." الخ

 (كتاب النكاح، ج: 2، ص: 306، ط: رحمانيه)

در مختار میں ہے:

"وفي الكافي: جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر وفي الشامي: حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين ظاهر المنصوص في الأصل أنه يلزم الألفان ويكون زيادة في المهر، وعند أبي يوسف المهر هو الأول لأن العقد الثاني لغو. فيلغو ما فيه. وعند الإمام أن الثاني وإن لغا لايلغو ما فيه من الزيادة".

(كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في أحكام المتعة، ج: 3، ص: 112، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144208200427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں