بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فوتگی کے بعد کھانے کا شرعی حکم


سوال

 ہمارےہاں اگر فوتگی ہو جائے، تو تقریبا 20٫15دن فوتگی والے گھررشتہ دار    کھانادیتے ہیں ،کبھی ایک کبھی دوسرا پھر وہ دیتے بھی زیادہ ہیں، اتنا کہ گھر والےاپنے پڑوسیوں میں تقسیم کرتےہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ  کیا یہ کھانا گھر والوں کے لیے جائز ہے؟ پڑوسیوں کے لیے جائز ہے؟ اور کیا پہلے 3دنوں کا اور بقیہ دنوں کا ایک ہی حکم ہے؟  

جواب

صورت مسئولہ میں اہل میت کے لیے ایک دن کھانا پہنچانا مستحب ہے، حسب ضرورت تین دن تک کھانا پہنچانا بھی جائز ہے، بشرطیکہ تین دن تک کھانا پہنچانے کو لازم نہ سمجھا  جاتا ہو ، بصورت دیگر تین دن تک کھانا پہنچانا واجب الترک عمل ہے، نیز فوتگی کے موقع پر 15 / 20 دن ضیافت کا اہتمام جیسا سائل کے یہاں مروج ہے ، واجب الترک ہے؛ کیوں کہ دعوت کا اہتمام  تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے، نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا مسدد، حدثنا سفيان، حدثنا جعفر بن خالد، عن أبيه عن عبد الله بن جعفر، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "اصنعوا لأل جعفر طعاما، فإنه قد أتاهم أمر يشغلهم".

(سنن ابی داود، باب صنعة الطعام لأهل الميت، ج:5، صفحہ:52، رقم الحدیث: 3132، ط: دار الرسالة العالمية)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم".

(کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، الفصل الثاني، ص: 151، ط: قدیمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف".

(کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، الفصل الثاني، ج:4،ص: 194، ط: رشیدیه) 

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون".

 (کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج: 2،ص: 240، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم".

(کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید،ج: 2،ص: 102 ، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں