بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

فری فائر اکاؤنٹ کی خریدوفروخت اور اس کے لیے یوٹیوب چینل بنانے کا حکم


سوال

 میں ایک گیم کھیلتا ہوں جوکہ فری فائر کے نام سے متعارف ہے، ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اکاونٹ بنایا جاتا ہے، اس پرپیسے خرچ کرنے کے بعد اکاونٹ مہنگے داموں میں اس کی خرید و فروخت ہوتی ہے کیا اس کی خرید و فروخت جائز ہے؟ اور وجہ بھی بتائیں ۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اس کا یوٹیوب چینل کھولنا چاہتا ہوں اگر میں گیم کے ساتھ اسلامی احکامات کا بھی خیال رکھوں تو کیا اس کی ارننگ جائز ہے؟ اور کہاں  کہاں  پر اس کو خرچ کر سکتے ہے؟

جواب

1:واضح رہے کہ ہر وہ چیز جس کا خارج میں کوئی وجود نہ ہواس کو مبیع بنانایا اس کی خریدوفروخت کرنا شرعاً درست نہیں ہےاورآن لائن گیمز اکاؤنٹس چوں کہ محض ایک فرضی چیز ہے خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے اس میں مبیع (قابل فروخت چیز)بننے کی صلاحیت نہیں ہے؛لہذا فری فائر گیم کے اکاؤنٹ کی خرید وفروخت شرعاً جائز نہیں ہے ۔

2: مذکورہ گیم جان داراشیاء کی تصاویر اور اس جیسے دیگر مفاسد پر مشتمل ہوتی ہے ، اس میں اسلامی احکامات کی رعایت نہیں رکھی جاسکتی ،لہذا اس کا کھیلنا بھی جائز نہیں ہے اور اس کے لیے یوٹیوب پر چینل بنانا اور اس سے کمائی کرنا بھی جائز نہیں ہوگا ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلاينعقد بيع المعدوم ... (ومنها) أن يكون مالاً لأن البيع مبادلة المال بالمال".

(كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه ،ج:5،ص: 138، 140،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(كتاب الصلاة،باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیها ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الإسلامی)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

"الإجارۃ علی المنافع المحرمة کالزنی والنوح والغناء والملاهی محرمة وعقدها باطل لا یستحق به أجرۃ، ولا یجوز استئجار کاتب لیکتب له غناءا ونوحًا ، لأنه انتفاع بمحرم."

(کتاب الإجارۃ،الإجارۃ علی المعاصی ،ج:1،ص:290،دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144610100737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں