بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ، لیوان کیشمنٹ، انشورنس، کموٹیشن اماؤنٹ کی مد میں ملنے والی رقم ورثاء میں تقسیم کرنا


سوال

میرے بہنوئی کا دوران ملازمت انتقال ہواہے،ان کو یعنی( میری بہن) کوکو گورنمنٹ کی طرف سے پیسہ ملا ہے،جن میں یہ سب شامل ہیں،جی پی فنڈ،لیوان کیشمنٹ (Leave Encashmen)،کموٹیشن اماؤنٹ(commutation of pension)،  گروپ انشورنس۔میری بہن کی کوئی اولاد نہیں ہے،جب کہ میرے بہنوئی کے پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں ماں باپ نہیں ہیں۔

1۔سوال یہ ہے  کہ ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا اور ترکہ میں کون کون سے فنڈ شامل ہوں گے۔

2۔جی پی  فنڈ میں سود کا پیسہ شامل ہے اس کو کس  طرح سے اور کتنا الگ کریں اور ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے اس کو نکال دیں یا نہیں؟

جواب

وا ضح رہے کہ جی پی فنڈ GP Fund کے نام پر ادارہ  ملازمین  کی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ نا کچھ فیصد رقم   منہا کرکے انویسٹ کرتا ہےاور ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت اضافہ کے ساتھ  یہ رقم لوٹائی  جاتی ہے،  اس کی دو صورتیں ہیں،  ہر ماہ جو کٹوتی ہوتی ہے وہ یا تو اختیاری ہوگی یا تو   جبری۔

اختیاری کٹوتی کا حکم:  اس صورت کا حکم یہ ہے  کہ مرحوم نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے  اتنی ہی جمع شدہ رقم  اور جتنی رقم ادارے نے  اپنی طرف سےجو رقم  ملائی تھی وہ لے سکتے ہیں،  ان دونوں رقموں کو انویسٹ کرکے جو مزید رقم حاصل ہوئی ہے وہ زائد رقم لینا شرعاًجائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ اس صورت میں انہوں  اپنے اختیار سے کٹوتی کروائی تھی، گویا وہ اپنی جمع شدہ رقم کو سودی انویسٹمنٹ میں صرف کرنے پر راضی تھے، لہٰذا یہ اضافہ لینا  تشبہ بالربا کی وجہ سے جائز نہیں  ہے،چناں چہ اس صورت میں اب ورثاء  کے لیے جی پی فنڈ کی  مد میں ملنے والی رقم میں سے اصل رقم اور ادارہ کی طرف سے بطور تبرع  ملنے والی رقم لینا جائز ہے ، ان دونوں  رقموں کے عوض ملنے والا نفع لینا جائز نہیں ہے، لہذا اصل رقم تمام ورثاء کے درمیان میراث کے شرعی قواعد کے مطابق تقسیم ہوگی ۔ 

جبری کٹوتی کا حکم:اس صورت کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈادارے کی طرف سے ملازمین کے لیے تنخواہ کا حصہ ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ، اس لیے  کہ ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور ملازم کو جب تک یہ رقم مل نہ جائے تب تک وہ اس کا قانوناً وشرعاً مالک نہیں ہوتا  لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا، چناں اس صورت میں جی پی فنڈ کے مجموعے پر میراث جاری ہوگی، اور اس کو میراث کے ضابطہ کے  مطابق تقسیم کیا جائے گا،جب کہ عام طور پر سرکاری ملازمین کا جی پی فنڈجبری ہی ہوتا ہے ،اس صورت میں پورا فنڈ قابلِ تقسیم ہوتا ہے ۔

2۔لیو ان کیشمنٹ (Leave Encashment):لیو ان کیشمنٹ کی رقم دراصل ملازم کی ان تعطیلات کا معاوضہ ہوتی ہے جو تعطیلات(تنخواہ کے ساتھ) ملازم کا حق تھا، مگر اس نے رخصت لینے کی بجائے ان تعطیلات میں بھی کام کیا تو ادارے کی طرف سے ان ایام  کی تنخواہ بھی ملازم کو ریٹائرمنٹ کے بعد دی جاتی ہے،اس فنڈ میں ملنے والی رقم میں میراث جاری ہوگی ۔

3۔ کموٹیشن اماؤنٹ(commutation of pension) پنشن کی کمیوٹیشن کا مطلب ہے پنشن کے ایک حصے کے بدلے یکمشت رقم کی ادائیگی جو پنشنر نے رضاکارانہ طور پر عمر کے سلسلے میں مدت کی بنیاد پر دی ہے، یہ خالصتاً ایک اختیاری سہولت ہے جو حکومت کی طرف سے پنشنر کو فراہم کی جاتی ہے،یہ پنشن کا حصہ ہوتا ہے،یہ تنخواہ سے کاٹ کر نہیں دی جاتی۔

4۔واضح رہے کہ سرکاری ملازمین کو گروپ انشورنس کے نام سے ملنے والی رقم کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ  مذکورہ فنڈ کی مد میں ملازم  کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں ہوتی،  بلکہ حکومت اپنے طور پر ملازمین کا گروپ انشورنس کرواتی ہے ، یا ملازم کو  تنخواہ ملنے سے پہلے گروپ انشورنس کے نام  سے جبری کٹوتی  کرتی ہو ، اور ملازم کا براہِ راست انشورنس کمپنی سے کوئی واسطہ نہ ہو۔

1۔ صورتِ مسئولہ میں ترکہ میں  جی پی فنڈ،لیوان کیشمنٹ ،گروپ  انشورنس  سب شامل ہے،یہ سب فنڈ  تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے اور کموٹیشن اماؤنٹ کے نام سے پنشن کا جو حصہ حکومت جس کے نام جاری کریں، وہ صرف اس کا حق  ہے،دیگر ورثاء اس میں میراث کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو باقی مال کے ایک تہائی سے نافذکرنے کے بعدباقی منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو  52 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 13 حصے،مرحوم کے ہر بھائی کو 6 حصے اور مرحوم کی ہر بہن کو3  حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 52/4

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
13
1366666333

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 25 فیصد، مرحوم کے ہر بھائی کو 11.53 فیصد اور مرحوم کی ہر بہن کو 5.76 فیصد ملیں گے۔

 جی پی فنڈ،لیوان کیشمنٹ ،گروپ  انشورنس   اور اس کے علاوہ مرحوم کی جتنی جائیداد ہو(کموٹیشن اماؤنٹ کے علاوہ)،وہ سب اس حساب سے ان کے ورثاء میں تقسیم کیا جائےگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة ، قالوا: حدثنا هشيم ، أخبرنا أبو الزبير ، عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء ."

(باب لعن آكل الربا ومؤكله، ۳ / ۱۲۱۹ ، ط: داراحیاءالتراث العربی)

مختصر تفسير البغوي المسمى بمعالم التنزيل ميں  ہے:

"قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} أي بالحرام، يعني: بالربا والقمار والغصب والسرقة."

(سورة النساء، 176/1، ط: دارالسلام)

بدائع الصانع میں ہے:

"لأنه حصل ‌بسبب ‌خبيث فكان سبيله التصدق."

(كتاب المزارعة، ج: 6، ص: 176، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه ايضاً:

"لأن الإرث إنما يجري في ‌المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم."

(كتاب الحدود، ج: 7، ص: 57، ط: دار الكتب العلمية)

درر الحکام فی شرح مجلہ الأحکام العدلیہ میں ہے:

"المادة (2 9 0 1) - (كما ‌تكون ‌أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم)."

(الكتاب العاشر، الباب الأول، الفصل الثالث، 55/3، ط: دارالجیل)

موسوعة القواعد الفقهية  میں ہے:

"وما ‌حصل ‌بسبب خبيث فالسّبيل ردّه لأنّ سبيل الكسب الخبيث التّصدّق إذا تعذّر الردّ على صاحبه، ويتصدّق بلا نيَّة الثّواب له، وإنّما ينوى به براءة الذّمّة."

(‌‌القاعدة الثّالثة والسّبعون، ‌‌ثالثاً، 125/9، ط: مؤسسة الرسالة، بيروت)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے‘‘۔

(4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں