بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی ٹکر سے بیٹی وفات پا گئی، والد پر دیت اور کفارہ کا حکم


سوال

ایک بندہ اپنی گاڑی کو پیچھے کر رہا تھا تو اسے معلوم نہیں تھا کہ گاڑی کے پیچھے اس کی اپنی بیٹی ہے،  لیکن وہ بچی گاڑی کے نیچے آکر مر گئی۔اس بندے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

اب آیا اس پر دیت لازم ہے یاکفارہ ؟

 

جواب

ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ایکسیڈنٹ کی صورت میں اگر کسی کی موت واقع ہوجائے، تو اسے قتل خطا کہا جاتا ہے، جس میں کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوتے ہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں مرحومہ بچی کے والد پر کفارہ یعنی  مسلسل ساٹھ روزے رکھنا اور دیت  لازم ہو گی،کفارہ کے روزے میں اگرکسی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو  روزے رکھنا پڑیں گے۔

دیت کی مقدار ایک ہزار دينار شرعی یا دس ہزار درہم شرعی ہے،   جس کا وزن جدید پیمانے  کے اعتبار  سے 30.618 کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔

جسے ادا کرنا  مذکورہ شخص کے عاقلہ ( یعنی  قاتل کے وارثین ) پر تین سال میں ادا کرنا   لازم ہوگا، جسے  مرحومہ بچی کے والد کے علاوہ  مرحومہ کے بقیہ ورثاء میں شرعی حصص کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا، پس ورثاء میں سے اگر کوئی دیت معاف کردیتا ہے، تو اس کا حصہ دیت  میں سے کم کردیا جائے گا، البتہ اگر مرحومہ بچی کے ورثاء دیت مکمل دیت لینے کے بجائے اس سے کم پر  باہمی رضامندی سے صلح کرلیں ، یا  سب دیت معاف کردیں،  تو یہ بھی جائز ہوگا۔

فتح القدير للكمال ابن الهماممیں ہے:

"(قال:ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

(كتاب الديات، باب جناية البهيمة والجناية عليها، ١٠ / ٣٣٠، ط: دار الفكر)

تکملة فتح الملهممیں ہے :

"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرك بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلك، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم".

( باب جرح العجماء و المعدن و البئر جبار، ٢ / ٥٢٣، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"الدية في الشرع اسم للمال الذي هو بدل للنفس لا تسمية للمفعول بالمصدر، لأنه من المنقولات الشرعية. والأرش اسم للواجب فيما دون النفس (دية شبه العمد مائة من الإبل أرباعا من بنت مخاض وبنت لبون وحقة إلى جذعة) بإدخال الغاية (وهي) الدية (المغلظة لا غير و) الدية (في الخطإ أخماس منها ومن ابن مخاض أو ألف دينار من الذهب أو عشرة آلاف درهم من الورق) وقال الشافعي: اثنا عشر ألفا وقالا منها ومن البقر مائتا بقرة، ومن الغنم ألفا شاة ومن الحلل مائتا حلة كل حلة ثوبان إزار ورداء هو المختار. (وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية".

( كتاب الديات، ٦ / ٥٧٣، ط: دار  الفكر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدينمیں ہے:

"(وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة.

(قوله لترك العزيمة) وهي هنا المبالغة في التثبت. قال في الكفاية: وهذا الإثم إثم القتل؛ لأن نفس ترك المبالغة في التثبت ليس بإثم، وإنما يصير به آثما إذا اتصل به القتل فتصير الكفارة لذنب القتل وإن لم يكن فيه إثم قصد القتل اهـ تأمل."

( كتاب الجنايات،  ٦ / ٥٣١، ط: دار الفكر)

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

" جوز الصلح عن جناية العمد والخطأ في النفس وما دونها إلا أنه لو صالح في العمد على أكثر من الدية جاز، كذا في الاختيار شرح المختار ويكون المال حالا على الجاني في ماله دون العاقلة، كذا في الحاوي.وفي الخطأ لو صالح على أكثر من الدية لايجوز، كذا في الاختيار شرح المختار". 

( كتاب الصلح، الباب الثاني عشر في الصلح عن الدماء والجراحات، ٤ / ٢٦٠، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں