بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گھرمیں نمازکےواسطےمختص کی گئی جگہ کوبوقتِ ضرورت دیگرضروریات میں استعمال کرنےکاحکم


سوال

ہم نے نماز کے لیے کمرہ مستقل طور پر یہ نیت کر کے مختص کیا تھا کہ ہم لوگ یہاں نماز پڑھا کریں گے لیکن چونکہ کمرہ بڑا ہے اور ہم لوگ نماز پڑھنے والے گھر کی عورتیں کم تھیں تو اس لیے ہم نے بعد میں کچھ جگہ جاۓنماز کی مقرر کر لی اور باقی کمرے سے چٹائی ہٹا دی، باقی کمرے کی جگہ اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہیں،تو کیا ہم لوگ ایک بار کمرہ مسجد بنانے کی نیت کرکے اس کو بعد میں اپنی ضرورت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ؟ جو مسجد لکھا گیا ہے اس سے گھر میں عورتوں کے لیے نما ز کی جگہ مقرر کرنا مراد ہے۔

جواب

 گھروں میں خواتین کےلیےنماز ودیگرعبادات کےواسطےجوجگہ مختص کی جاتی ہےوہ مسجدشرعی نہیں ہوتی ؛اس لئےضرورت پڑنےپرضرورت   کےمطابق ایسی متعین شدہ جگہ کوگھرکی دیگر ضروریات میں استعمال  کرناجائزہوتا ہے۔

لہٰذاگھرمیں نمازکےواسطےمختص شدہ کمرےکوگھرکی دیگرضروریات میں استعمال کیاجاسکتاہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به، كذا في الهداية."

(كتاب الوقف،الفصل الأول فيمايصيربه مسجدا،ج:2،ص:454،ط:مكتبه ماجديه كوئته)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويزول ملكه عن المسجد و المصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)...وفي القهستاني ولا بد من إفرازه أي تمييزه عن ملكه من جميع الوجوه فلو كان العلو مسجدا والسفل حوانيت أو بالعكس لا يزول ملكه لتعلق حق العبد به كما في الكافي."

(كتاب الوقف،مطلب:سكني دارا ثم ظهرأنهاوقف،ج:4،ص:356،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں